تجھ سے بھی حسیں ہے ترے افکار کا رشتہ

تجھ سے بھی حسیں ہے ترے افکار کا رشتہ
تو مانگ لے مجھ سے مرے اشعار کا رشتہ


وہ دھوپ میں نکھرا ہوا بلور سا پیکر
چاندی سا چمکتا ہوا دیدار کا رشتہ


تنہائی میں پہنچے تو سبھی تھے تہی داماں
بازار میں چھوڑ آئے تھے بازار کا رشتہ


اک اور گرہ سانس کی ڈوری میں پڑے گی
یاد آیا مجھے بھولا ہوا پیار کا رشتہ


افکار کے جنگل میں کھڑا سوچ رہا ہوں
کس طرح معانی سے ہو اظہار کا رشتہ


کیوں یاد دلاتے ہو رشیدؔ ان کو یہ بندھن
اب کون نبھاتا ہے یہ بیکار کا رشتہ