Rasheed Qaisrani

رشید قیصرانی

رشید قیصرانی کی غزل

    گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں

    گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں اپنے سوئے ہوئے ساتھی کو جگا لوں تو چلوں پھر بکھر جاؤں گا میں راہ میں ذروں کی طرح کوئی پیمان وفا خود سے میں باندھوں تو چلوں جانے تو کون ہے کس سمت بلاتا ہے مجھے تیری آواز کی پرچھائیں کو چھو لوں تو چلوں بجھ نہ جائیں ترے جلووں کے مقدس فانوس اپنے ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا

    صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا پلکوں پہ اگر مجھ کو سجا لیتے تو کیا تھا تو پھیل گیا تا بہ افق مجھ سے بچھڑ کر میں جسم کے زنداں میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا ہاں مجھ کو ترے سرخ کجاوے کی قسم ہے اس راہ میں پہلے کوئی گھنگھرو نہ بجا تھا گزرے تھے مرے سامنے تم دوش ہوا پر میں دور کہیں ...

    مزید پڑھیے

    یہ زاویہ سورج کا بدل جائے گا سائیں

    یہ زاویہ سورج کا بدل جائے گا سائیں سایہ ہے مگر سایہ تو ڈھل جائے گا سائیں خود آپ کے ہاتھوں کا تراشا ہوا لمحہ خود آپ کے ہاتھوں سے پھسل جائے گا سائیں یہ برف بدن آپ کا اور موم کا مسکن اس دھوپ نگر میں تو پگھل جائے گا سائیں ساحل نہ رہے گا تہی داماں کہ سمندر اک دن کوئی موتی بھی اگل جائے ...

    مزید پڑھیے

    یوں بھی اک بزم صدا ہم نے سجائی پہروں

    یوں بھی اک بزم صدا ہم نے سجائی پہروں کان بجتے رہے آواز نہ آئی پہروں اک ترا نام تھا ابھرا جو فصیل لب پر ورنہ سکتے میں رہی ساری خدائی پہروں لمحہ بھر کے لیے برسی تری یادوں کی گھٹا ہم نے بھیگی ہوئی چلمن نہ اٹھائی پہروں وہ تو پھر غیر تھا غیروں سے شکایت کیا ہو نبض اپنی بھی مرے ہاتھ نہ ...

    مزید پڑھیے

    دریاؤں کا صحراؤں میں بہنا مرا قصہ

    دریاؤں کا صحراؤں میں بہنا مرا قصہ قصے میں کوئی بات نہ کہنا مرا قصہ تھا حرف ملامت وہ مرا کاغذی ملبوس لوگوں نے مگر شوق سے پہنا مرا قصہ چلنے دو مجھی پر مری آواز کے نشتر تم اپنی سماعت پہ نہ سہنا مرا قصہ پوشاک بدلتا رہا بدلی جو کبھی رت میں پھر بھی برہنہ ہوں برہنہ مرا قصہ میں زندہ ...

    مزید پڑھیے

    اپنی طرح مجھے بھی زمانے میں عام کر

    اپنی طرح مجھے بھی زمانے میں عام کر اے ذات عنبریں مجھے خوشبو مقام کر ان پتھروں کو راکھ نہ کر سوز نطق سے مجھ سے کلام کر کبھی مجھ سے کلام کر صدیوں کی میں کشید ہوں اے ساقیٔ ازل میرے وجود کو بھی کبھی صرف جام کر آزاد ہو چکا ہوں میں قید حواس سے بام نظر سے اب مرا بالا مقام کر مجھ کو ...

    مزید پڑھیے

    دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی

    دم بھر کی خوشی باعث آزار بھی ہوگی اس راہ میں سایہ ہے تو دیوار بھی ہوگی صدیوں سے جہاں جس کے تعاقب میں رواں ہے وہ ساعت صد رنگ گرفتار بھی ہوگی رنگوں کی ردا اوڑھ کے اس ریگ رواں پر اتری ہے جو شب وہ شب دیدار بھی ہوگی اٹھلائے گا پلکوں پہ کبھی صبح کا تارا بیدار کبھی نرگس بیمار بھی ...

    مزید پڑھیے

    جب رات کے سینے میں اترنا ہے تو یارو

    جب رات کے سینے میں اترنا ہے تو یارو بہتر ہے کسی چاند کو شیشے میں اتارو دیوار پگھلتی ہے جھلس جاتے ہیں سائے یہ دھوپ نگاہوں کی بہت تیز ہے یارو پرچھائیاں پوجیں گے کہاں تک یہ پجاری اپناؤ کوئی جسم کوئی روپ تو دھارو خود اہل قلم اس میں کئی رنگ بھریں گے تم ذہن کے پردے پہ کوئی نقش ...

    مزید پڑھیے

    کون کہتا ہے ترے دل میں اتر جاؤں گا

    کون کہتا ہے ترے دل میں اتر جاؤں گا میں تو لمحہ ہوں تجھے چھو کے گزر جاؤں گا شب کے چہرہ میں کوئی رنگ تو بھر جاؤں گا چل پڑا ہوں تو میں اب تا بہ سحر جاؤں گا آسمانوں کی صفیں کاٹ کے پہنچا تھا یہاں اب تری آنکھ سے ٹوٹا تو کدھر جاؤں گا اپنی نظروں کا کوئی دائرہ بن کے مرے گرد ورنہ ان تیز ...

    مزید پڑھیے

    صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا

    صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا پلکوں پہ اگر مجھ کو سجا لیتے تو کیا تھا تو پھیل گیا تا بہ ابد مجھ سے بچھڑ کر میں جسم کے زنداں میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا ہاں مجھ کو ترے سرخ کجاوے کی قسم ہے اس راہ میں پہلے کوئی گھنگرو نہ بجا تھا گزرے تھے مرے سامنے تم دوش ہوا پر میں دور کہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4