گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں
گنبد ذات میں اب کوئی صدا دوں تو چلوں اپنے سوئے ہوئے ساتھی کو جگا لوں تو چلوں پھر بکھر جاؤں گا میں راہ میں ذروں کی طرح کوئی پیمان وفا خود سے میں باندھوں تو چلوں جانے تو کون ہے کس سمت بلاتا ہے مجھے تیری آواز کی پرچھائیں کو چھو لوں تو چلوں بجھ نہ جائیں ترے جلووں کے مقدس فانوس اپنے ...