پانی کی طرح ریت کے سینے میں اتر جا
پانی کی طرح ریت کے سینے میں اتر جا
یا پھر سے دھواں بن کے خلاؤں میں بکھر جا
لہرا کسی چھتنار پہ او میت ہوا کے
سوکھے ہوئے پتوں سے دبے پاؤں گزر جا
چڑھتی ہوئی اس دھوپ میں سایہ تو ڈھلے گا
احسان کوئی ریت کی دیوار پہ دھر جا
بجھتی ہوئی اک شب کا تماشائی ہوں میں بھی
اے صبح کے تارے مری پلکوں پہ ٹھہر جا
لہرائے گا آکاش پہ صدیوں ترا پیکر
اک بار مری روح کے سانچے میں اتر جا
اس بن میں رہا کرتی ہے پرچھائیں صدا کی
اے رات کے راہی تو ذرا تیز گزر جا
اس پار چلا ہے تو رشیدؔ اپنا اثاثہ
بہتر ہے کسی آنکھ کی دہلیز پہ دھر جا