Rasheed Qaisrani

رشید قیصرانی

رشید قیصرانی کے تمام مواد

33 غزل (Ghazal)

    مری جبیں کا مقدر کہیں رقم بھی تو ہو

    مری جبیں کا مقدر کہیں رقم بھی تو ہو میں کس کو سامنے رکھوں کوئی صنم بھی تو ہو کرن کرن ترا پیکر کلی کلی چہرہ یہ لخت لخت بدن اب کہیں بہم بھی تو ہو مرے نصیب میں آخر خلا نوردی کیوں مری زمیں ہے تو اس پر مرا قدم بھی تو ہو ہر ایک شخص نے کتبہ اٹھا رکھا ہے یہاں کسی کے ہاتھ میں آخر کوئی علم ...

    مزید پڑھیے

    گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے

    گم گشتہ منزلوں کا مجھے پھر نشان دے میری زمین مجھ کو مرا آسمان دے زخموں کی آبرو کو نہ یوں خاک میں ملا چادر مرے لہو کی مرے سر پہ تان دے یہ دھڑکنوں کا شور قیامت سے کم نہیں اے رب صوت مجھ کو دل بے زبان دے یا مجھ سے چھین لے یہ مذاق بلند و پست یا میرے بال و پر کو کھلا آسمان دے مانگا تھا ...

    مزید پڑھیے

    منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے

    منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے مجھ کو بلا رہا ہے وہ خود اپنے نام سے سوئے تو سبز پیر کا سایہ سرک گیا ڈیرا جما رکھا تھا بڑے اہتمام سے کیسے مٹا سکے گا مجھے سیل آب و گل نسبت ہے میرے نقش کو نقش دوام سے گو شہر خفتگاں میں قیامت کا رن پڑا تلوار پھر بھی نکلی نہ کوئی نیام سے ہالہ بنا ...

    مزید پڑھیے

    تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا

    تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا مجھ تک پہنچ سکی نہ ترے شہر کی ہوا وہ قہقہوں کی سیج پہ بیٹھا ہوا ملا میں جس کے در پہ درد کی بارات لے گیا اک عمر جستجو میں گزاری تو یہ کھلا وہ میرے پاس تھا میں جسے ڈھونڈھتا رہا نکلا ہوں لفظ لفظ سے میں ڈوب ڈوب کر یہ تیرا خط ہے یا کوئی دریا چڑھا ...

    مزید پڑھیے

    دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے

    دیپ سے دیپ جلاؤ تو کوئی بات بنے گیت پر گیت سناؤ تو کوئی بات بنے قطرہ قطرہ نہ پکارو مجھے بہتی ندیوں موج در موج بلاؤ تو کوئی بات بنے رات اندھی ہے گزر جائے گی چپکے چپکے جال کرنوں کا بچھاؤ تو کوئی بات بنے سامنے اپنے ہی خاموش کھڑا ہوں کب سے درمیاں تم بھی جو آؤ تو کوئی بات بنے داستاں ...

    مزید پڑھیے

تمام