صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا

صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا
پلکوں پہ اگر مجھ کو سجا لیتے تو کیا تھا


تو پھیل گیا تا بہ افق مجھ سے بچھڑ کر
میں جسم کے زنداں میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا


ہاں مجھ کو ترے سرخ کجاوے کی قسم ہے
اس راہ میں پہلے کوئی گھنگھرو نہ بجا تھا


گزرے تھے مرے سامنے تم دوش ہوا پر
میں دور کہیں ریت کے ٹیلے پہ کھڑا تھا


سینے میں ابھرتے ہوئے سورج کا تلاطم
آنکھوں میں تری ڈوبتی راتوں کا نشہ تھا


گزرا نہ ادھر سے کوئی پتھر کا پجاری
مدت سے میں اس راہ کے ماتھے پہ سجا تھا


جب وقت کی دہلیز پہ شب کانپ رہی تھی
شعلہ سا مرے جسم کے آنگن سے اٹھا تھا


اب جانیے کیا نقش ہواؤں نے بنائے
اس ریت پہ میں نے تو ترا نام لکھا تھا


اے دیدۂ حیراں تو ذرا اور قریب آ
اے ڈھونڈنے والے میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا