یوں بھی اک بزم صدا ہم نے سجائی پہروں

یوں بھی اک بزم صدا ہم نے سجائی پہروں
کان بجتے رہے آواز نہ آئی پہروں


اک ترا نام تھا ابھرا جو فصیل لب پر
ورنہ سکتے میں رہی ساری خدائی پہروں


لمحہ بھر کے لیے برسی تری یادوں کی گھٹا
ہم نے بھیگی ہوئی چلمن نہ اٹھائی پہروں


وہ تو پھر غیر تھا غیروں سے شکایت کیا ہو
نبض اپنی بھی مرے ہاتھ نہ آئی پہروں


آنکھ جھپکی تو رواں تھی وہ ہوا کے رخ پر
ہم نے جو ریت کی دیوار بنائی پہروں


پر سمیٹے ہوئے یوں چپکے سے لمحہ گزرا
شب کی دہلیز پہ دی ہم نے دہائی پہروں


لوٹ کر آئے نہ بھٹکے ہوئے راہی دل میں
آگ اس دشت میں ہم نے تو جلائی پہروں


پھر بھی لے دے کے وہی روگ پرانا نکلا
ہم نے موڑی ہے خیالوں کی کلائی پہروں


وہ ہیولے تھے کہ سائے تھے سر رقص رشیدؔ
جسم کی ایک بھی جھنکار نہ آئی پہروں