تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا
تنہائیوں کا حبس مجھے کاٹتا رہا
مجھ تک پہنچ سکی نہ ترے شہر کی ہوا
وہ قہقہوں کی سیج پہ بیٹھا ہوا ملا
میں جس کے در پہ درد کی بارات لے گیا
اک عمر جستجو میں گزاری تو یہ کھلا
وہ میرے پاس تھا میں جسے ڈھونڈھتا رہا
نکلا ہوں لفظ لفظ سے میں ڈوب ڈوب کر
یہ تیرا خط ہے یا کوئی دریا چڑھا ہوا
نظریں ملیں تو وقت کی رفتار تھم گئی
نازک سے ایک لمحے پہ صدیوں کا بوجھ تھا
میں نے بڑھا کے ہاتھ اسے چھو لیا رشیدؔ
اتنا قریب آج مرے چاند آ گیا