منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے
منہ کس طرح سے موڑ لوں ایسے پیام سے
مجھ کو بلا رہا ہے وہ خود اپنے نام سے
سوئے تو سبز پیر کا سایہ سرک گیا
ڈیرا جما رکھا تھا بڑے اہتمام سے
کیسے مٹا سکے گا مجھے سیل آب و گل
نسبت ہے میرے نقش کو نقش دوام سے
گو شہر خفتگاں میں قیامت کا رن پڑا
تلوار پھر بھی نکلی نہ کوئی نیام سے
ہالہ بنا رہا ہے تو اب ان کے ذکر کا
کب کے گئے وہ لوگ سلام و پیام سے
میں تو اسیر گرمئ بازار ہوں رشیدؔ
مجھ کو غرض نہ جنس سے درہم نہ دام سے