جیسے جی چاہے مرا حوصلہ پرکھا جائے

جیسے جی چاہے مرا حوصلہ پرکھا جائے
دور اک دشت میں تنہا کہیں پھینکا جائے


توڑنا اور کئی بار بنانا مجھ کو
دوستو اتنا بھی آسان نہ سمجھا جائے


رکھا جائے مجھے جنت سے کسی منظر میں
پاؤں کے نیچے ہی جنت کو نہ رکھا جائے


دیکھنے والے حسیں آنکھ بہت دیکھتے ہیں
جو پس چشم ہے غم اس کو بھی دیکھا جائے


میں نے کچھ باتیں فرشتوں کو بتانی ہیں ابھی
عرش پہ آج اسی وقت بلایا جائے


آتش وقت بدل ڈالے گی چہرے کے نقوش
اب مرے چہرے پہ کچھ اور نہ پھینکا جائے


اس کی تکمیل میں شامل ہے مرا پورا وجود
گھر کی تختی پہ مرا نام بھی لکھا جائے


اس کہانی کا ہے رخشندہؔ یہی لب لباب
پہلے عزت ہو تو پھر بعد میں چاہا جائے