آسماں اس کے لیے اور زمیں اس کے ساتھ

آسماں اس کے لیے اور زمیں اس کے ساتھ
شہر کا چل دیا ہر ایک حسیں اس کے ساتھ


بس یہی سوچ کے میں بھوکی رہی کتنے دن
ہوگی اک دعوت شیراز کہیں اس کے ساتھ


ناؤ کو چار طرف گھیرے کھڑے تھے گرداب
یہ مگر فیصلہ میرا تھا نہیں اس کے ساتھ


کیسے میں خالی کرا سکتی تھی یہ دل اپنا
گھر کے دیوار و در و عکس و مکیں اس کے ساتھ


وہ جو اک پیر تلے شخص ہے بھوکا پیاسا
بوریا میرا لگا دیجو وہیں اس کے ساتھ


اس کی فیروزہ نگاہی میں عجب جادو ہے
رنگ تبدیل کرے چشم نگیں اس کے ساتھ


دور آکاش پہ روشن رہے حسن مہتاب
اپنی رخشندہؔ منور ہے جبیں اس کے ساتھ