سمندر بھی ہوا عبرت نشاں پانی ہی پانی

سمندر بھی ہوا عبرت نشاں پانی ہی پانی
مرے چاروں طرف ہے الاماں پانی ہی پانی


عجب دنیا ہے اس کو فکر دنیا ہی نہیں ہے
فقط دیکھا ہے تو گریہ کناں پانی ہی پانی


نگاہ نم سے اس نسبت بھی رشتہ جوڑے رکھا
کہ میں ہوں ایک صحرا اور وہاں پانی ہی پانی


تمہارے ساتھ جس دم تن بدن بارش میں بھیگا
لہو بن کر رگوں میں تھا رواں پانی ہی پانی


سمندر سے حسد کرنے کو اب جی چاہتا ہے
ہزاروں سال سے یوں ہی جواں پانی ہی پانی


یہاں سے بچ نکلنے کا کوئی رستہ نہیں ہے
کنارے اور ان کے درمیاں پانی ہی پانی