Rajesh Reddy

راجیش ریڈی

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

Popular poet depicting social realities

راجیش ریڈی کی غزل

    جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے

    جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے قطرہ قطرے سے سمندر کا پتہ پوچھتا ہے ڈھونڈتا رہتا ہوں آئینے میں اکثر خود کو میرا باہر مرے اندر کا پتہ پوچھتا ہے ختم ہوتے ہی نہیں سنگ کسی دن اس کے روز وہ ایک نئے سر کا پتہ پوچھتا ہے ڈھونڈتے رہتے ہیں سب لوگ لکیروں میں جسے وہ مقدر بھی سکندر کا ...

    مزید پڑھیے

    عکس موجود نہ سایا موجود

    عکس موجود نہ سایا موجود مجھ میں اب کچھ نہیں میرا موجود نکل آتا ہوں میں اکثر باہر کوئی خود میں رہے کتنا موجود کبھی دریا سے ہے قطرہ غائب کبھی قطرے میں ہے دریا موجود میں ذرا بھی نہیں اس میں لیکن مجھ میں وہ سارا کا سارا موجود جب تلک پیاس ہے تجھ میں باقی بس تبھی تک ہے یہ دریا ...

    مزید پڑھیے

    کتنی آسانی سے دنیا کی گرہ کھولتا ہے

    کتنی آسانی سے دنیا کی گرہ کھولتا ہے مجھ میں اک بچہ بزرگوں کی طرح بولتا ہے کیا عجب ہے کہ اڑاتا ہے کبوتر پہلے پھر فضاؤں میں وہ بارود کی بو گھولتا ہے روپ کتنے ہی بھریں کتنے ہی چہرے بدلیں آئینہ آپ کو اپنی ہی طرح تولتا ہے سوچ لو کل کہیں آنسو نہ بہانے پڑ جائیں خون کا کیا ہے رگوں میں ...

    مزید پڑھیے

    خط میں ابھر رہی ہے تصویر دھیرے دھیرے

    خط میں ابھر رہی ہے تصویر دھیرے دھیرے گم ہوتی جا رہی ہے تحریر دھیرے دھیرے احساس تجھ کو ہوگا زنداں کا رفتہ رفتہ تجھ پر کھلے گی تیری زنجیر دھیرے دھیرے مجھ سے ہی کام میرے ٹلتے چلے گئے ہیں ہوتی چلی گئی ہے تاخیر دھیرے دھیرے تقدیر رنگ اپنا دکھلا رہی ہے پل پل بے رنگ ہو چلی ہے تدبیر ...

    مزید پڑھیے

    شوق کی حد کو ابھی پار کیا جانا ہے

    شوق کی حد کو ابھی پار کیا جانا ہے آئینے میں ترا دیدار کیا جانا ہے ہم تصور میں بنا بیٹھے ہیں اک چارہ گر خود کو جس کے لئے بیمار کیا جانا ہے دل تو دنیا سے نکلنے پہ ہے آمادہ مگر اک ذرا ذہن کو تیار کیا جانا ہے توڑ کے رکھ دئے باقی تو انا نے سارے بت بس اک اپنا ہی مسمار کیا جانا ...

    مزید پڑھیے

    شرمندہ اپنی جیب کو کرتا نہیں ہوں میں

    شرمندہ اپنی جیب کو کرتا نہیں ہوں میں بازار آرزو سے گزرتا نہیں ہوں میں پہچان ہی نہ پاؤں خود اپنے ہی عکس کو اتنا بھی آئنے میں سنورتا نہیں ہوں میں ان کاموں کی بناتا ہوں فہرست بار بار جو کام مجھ کو کرنے ہیں کرتا نہیں ہوں میں

    مزید پڑھیے

    دن کو دن رات کو میں رات نہ لکھنے پاؤں

    دن کو دن رات کو میں رات نہ لکھنے پاؤں ان کی کوشش ہے کہ حالت نہ لکھنے پاؤں ہندو کو ہندو مسلمان کو لکھوں مسلم کبھی ان دونوں کو اک ساتھ نہ لکھنے پاؤں بس قلم بند کئے جاؤں میں ان کی ہر بات دل سے جو اٹھتی ہے وہ بات نہ لکھنے پاؤں سوچ تو لیتا ہوں کیا لکھنا ہے پر لکھتے سمے کانپتے کیوں ہے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اس قدر میں خرد کے اثر میں آ گیا ہوں

    کچھ اس قدر میں خرد کے اثر میں آ گیا ہوں سمٹ کے سارا کا سارا ہی سر میں آ گیا ہوں زمیں اچھال چکی آسماں نے تھاما نہیں میں کائنات میں بالکل ادھر میں آ گیا ہوں یہ زندگی بھی مرے حوصلوں پہ حیراں ہے سمجھ رہی تھی کہ میں اس کے ڈر میں آ گیا ہوں ذرا سا فاصلہ میں نے بھی طے کیا تو ہے اگر سے دو ...

    مزید پڑھیے

    لکھ لکھ کے آنسوؤں سے دیوان کر لیا ہے

    لکھ لکھ کے آنسوؤں سے دیوان کر لیا ہے اپنے سخن کو اپنی پہچان کر لیا ہے آخر ہٹا دیں ہم نے بھی ذہن سے کتابیں ہم نے بھی اپنا جینا آسان کر لیا ہے دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں موندنے کی خاطر آتے ہی لوٹنے کا سامان کر لیا ہے سب لوگ اس سے پہلے کہ دیوتا سمجھتے ہم نے ذرا سا خود کو انسان کر لیا ...

    مزید پڑھیے

    غم کو دل کا قرار کر لیا جائے

    غم کو دل کا قرار کر لیا جائے اس خزاں کو بہار کر لیا جائے پھر جنوں کو سوار کر لیا جائے خود کو پھر تار تار کر لیا جائے زندگی کی کمان سے نکلے تیر کو آر پار کر لیا جائے خودکشی کو ادھار رکھتے ہوئے موت کا انتظار کر لیا جائے تجربوں کو بھلا کے چاہتے ہیں تجھ پہ پھر اعتبار کر لیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4