جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے
جس کو بھی دیکھو ترے در کا پتہ پوچھتا ہے قطرہ قطرے سے سمندر کا پتہ پوچھتا ہے ڈھونڈتا رہتا ہوں آئینے میں اکثر خود کو میرا باہر مرے اندر کا پتہ پوچھتا ہے ختم ہوتے ہی نہیں سنگ کسی دن اس کے روز وہ ایک نئے سر کا پتہ پوچھتا ہے ڈھونڈتے رہتے ہیں سب لوگ لکیروں میں جسے وہ مقدر بھی سکندر کا ...