اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم
اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم خود کو سمیٹتے ہیں یہاں سے وہاں سے ہم کیا جانے کس جہاں میں ملے گا ہمیں سکون ناراض ہیں زمیں سے خفا آسماں سے ہم اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم لیکن ہماری آنکھوں نے کچھ اور کہہ دیا کچھ اور کہتے رہ گئے ...