Rajesh Reddy

راجیش ریڈی

سماجی حقیقتوں کو بے نقاب کرنے والے مقبول عام شاعر

Popular poet depicting social realities

راجیش ریڈی کی غزل

    اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم

    اب کیا بتائیں ٹوٹے ہیں کتنے کہاں سے ہم خود کو سمیٹتے ہیں یہاں سے وہاں سے ہم کیا جانے کس جہاں میں ملے گا ہمیں سکون ناراض ہیں زمیں سے خفا آسماں سے ہم اب تو سراب ہی سے بجھانے لگے ہیں پیاس لینے لگے ہیں کام یقیں کا گماں سے ہم لیکن ہماری آنکھوں نے کچھ اور کہہ دیا کچھ اور کہتے رہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    نہ جسم ساتھ ہمارے نہ جاں ہماری طرف

    نہ جسم ساتھ ہمارے نہ جاں ہماری طرف ہے کچھ بھی ہم میں ہمارا کہاں ہماری طرف کھڑے ہیں پیاسے انا کے اسی بھروسے پر کہ چل کے آئے گا اک دن کنواں ہماری طرف بچھڑتے وقت وہ تقسیم کر گیا موسم بہار اس کی طرف ہے خزاں ہماری طرف اسی امید پہ کردار ہم نبھاتے رہے کہ رخ کرے گی کبھی داستاں ہماری ...

    مزید پڑھیے

    یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے

    یہاں ہر شخص ہر پل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے کھلونا ہے جو مٹی کا فنا ہونے سے ڈرتا ہے مرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے نہ بس میں زندگی اس کے نہ قابو موت پر اس کا مگر انسان پھر بھی کب خدا ہونے سے ڈرتا ہے عجب یہ زندگی کی قید ہے دنیا کا ہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4