وہ لمحہ میرے لیے کس قدر عذاب کا تھا

وہ لمحہ میرے لیے کس قدر عذاب کا تھا
حقیقتوں پہ گماں جب خیال و خواب کا تھا


تمام عمر ہم اپنی انا میں مست رہے
وہ نشہ سب سے الگ تھا جو اس شراب میں تھا


کہاں گئے مرے موسم وہ آرزوؤں کے
کہاں گیا جو زمانہ مرے شباب کا تھا


مٹا دئے تھے سبھی حرف غم کی بارش نے
عجیب حال مری زیست کی کتاب کا تھا


جلا نہ تھا مرے گھر میں کوئی دیا جب تک
کہاں یہ رنگ ہواؤں کے پیچ و تاب کا تھا


ہوئے بلند کچھ اتنے کہ ہوش ہی نہ رہا
وہ تھا زمین کا منظر کہ ماہتاب کا تھا


اڑی ہے آج بہت خاک اس جگہ خاورؔ
ہرا بھرا کوئی پودا جہاں گلاب کا تھا