پاس سے یوں آنچل لہراتے لوگ گزرتے رہتے ہیں
پاس سے یوں آنچل لہراتے لوگ گزرتے رہتے ہیں
میرے بدن میں قوس قزح کے رنگ اترتے رہتے ہیں
اپنے اندر چھپے ہوئے دشمن کا ہے احساس جنہیں
میری طرح وہ لوگ بھی اپنے آپ سے ڈرتے رہتے ہیں
ہم نے دیکھنا چھوڑ دئے ہیں اک مدت سے ایسے خواب
تعبیروں کی چاہت میں جو خواب کہ مرتے رہتے ہیں
راہ میں چاہے دھوپ کڑی ہو یا سائے باہیں پھیلائیں
جن کا کام گزرنا ہے وہ لوگ گزرتے رہتے ہیں
لاکھ شناسا ہو پر خوشبو کس کو دکھائی دیتی ہے
ایک ہمیں ہیں دیر تلک آہیں جو بھرتے رہتے ہیں
واسطہ پڑتا ہی رہتا ہے تیز ہواؤں سے اپنا
ہم بے گھر لوگوں کے اکثر جسم بکھرتے رہتے ہیں
صبح سویرے گھر سے خاورؔ نکلے ہو پھر دھیان رہے
کالی رات کے لمحے دن کا روپ بھی دھرتے رہتے ہیں