اپنے پہلو میں چھپائے ہوئے پتھر نکلا

اپنے پہلو میں چھپائے ہوئے پتھر نکلا
یہ ترا شہر بھی تجھ سا ہی ستم گر نکلا


تھی جو محفوظ مرے ساتھ مری خاک بدن
لے اڑی تیز ہوا گھر سے جو باہر نکلا


سب کی گویائی پہ حاوی تھی مری خاموشی
کون مجھ سا تری محفل میں سخنور نکلا


شہر میں پھیلا ہوا خوف شناسائی تھا
گھر سے ہر شخص نیا روپ بدل کر نکلا


کس طرف جاؤ گے اب پیاس بجھانے لوگو
دشت بے آب سے آگے تو سمندر نکلا


بن گئی پاؤں کی زنجیر در و بام کی یاد
خود مری راہ کی دیوار مرا گھر نکلا


کی محبت بھی تو اک دشمن جاں سے خاورؔ
اپنا دشمن نہ کوئی تیرے برابر نکلا