کوئی بھی نہیں شہر میں جب ذات کے باہر

کوئی بھی نہیں شہر میں جب ذات کے باہر
کیوں بھیڑ یہ رہتی ہے مکانات کے باہر


حیرانی و مدہوشی و تسکین و مسرت
کچھ بھی تو نہیں قصر طلسمات کے باہر


ہر وقت کی یہ خواب کی عادت نہیں اچھی
دیدار کو رعنائی دے ظلمات کے باہر


آزاد ہے وہ نفس کی تحویل میں راحتؔ
اور ہم ہیں گرفتار حوالات کے باہر