میں دشت میں گر خود کو مہیا نہیں کرتا
میں دشت میں گر خود کو مہیا نہیں کرتا
گردش سے رہا مجھ کو بگولہ نہیں کرتا
پہچان کو اک دل ہی مددگار بہت ہے
سو پیش کوئی اور حوالہ نہیں کرتا
دیکھا ہی نہیں آنکھ نے جس شہر کو پہلے
وہ بھی مری حیرت میں اضافہ نہیں کرتا
ہر زخم کی لذت کا پرستار ہوں لیکن
سیراب مجھے یہ بھی نوالہ نہیں کرتا
منزل سے ہے یہ کیسی عقیدت کہ سفر میں
راہی کوئی رستے پہ بھروسہ نہیں کرتا
اب دہر میں اغیار کی رسموں کا چلن ہے
اب کام عزیزوں کا طریقہ نہیں کرتا
کیسا ہے مری ذات کا بکھراؤ کہ راحتؔ
صحرا مری وسعت کا احاطہ نہیں کرتا