لباس چاک میں ایوان کے آگے نہیں جاتی

لباس چاک میں ایوان کے آگے نہیں جاتی
فراست یوں ہی ہر سلطان کے آگے نہیں جاتی


میں طے کرتا ہوں ربط و ضبط کی سب منزلیں پھر بھی
رفاقت جان اور پہچان کے آگے نہیں جاتی


رہائش تو سبھی کی ہے اسی بازار میں لیکن
نظر ہی اب مری سامان کے آگے نہیں جاتی


جنوں میں ریگزاروں کا ارادہ کر رہا ہوں میں
سواری کوئی نخلستان کے آگے نہیں جاتی


یہ کس ویران حجرے کو بسانا چاہتا ہوں میں
کوئی پرچھائیں بھی دالان کے آگے نہیں جاتی


سنائی دے بھی کیا تم کو کہ جس کو ذات کہتے ہو
صدا میری اسی میدان کے آگے نہیں جاتی


بیان حرف کو میں طول دیتا ہوں مگر راحتؔ
کہانی شوق کی وجدان کے آگے نہیں جاتی