Rafiq Sandelvi

رفیق سندیلوی

رفیق سندیلوی کی نظم

    غار میں بیٹھا شخص

    چاند ستارے پھول بنفشی پتے ٹہنی ٹہنی جگنو بن کر اڑنے والی برف لکڑی کے شفاف ورق پر مور کے پر کی نوک سے لکھے کالے کالے حرف اجلی دھوپ میں ریت کے روشن ذرے اور پہاڑی درے ابر سوار سہانی شام اور سبز قبا میں ایک پری کا جسم سرخ لبوں کی شاخ سے جھڑتے پھولوں جیسے اسم رنگ برنگ طلسم جھیل کی تہہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی گھڑی ہے

    یہ کیسی گھڑی ہے زمانی تسلسل کا پہیہ گھما کر یہاں وقت کو جیسے فطرت سے کاٹا گیا ہے خلیجیں جو رکھی گئیں نور و ظلمت کے مابین ان سب کو پاٹا گیا ہے سمے رات کا ہے مگر دھوپ سورج سے لے کر اجازت ہمارے سرہانے کھڑی ہے یہ کیسی گھڑی ہے یہ کیسی گھڑی ہے کہ جیسے ہمارے سرہانے کا بالکل ہماری ہی ...

    مزید پڑھیے

    ایک زنجیرِ گریہ مرے ساتھ تھی

    میں گیا اس طرف جس طرف نیند تھی جس طرف رات تھی بند مجھ پر ہوئے سارے در سارے گھر میں گیا اس طرف جس طرف تیر تھے جس طرف گھات تھی مجھ پہ مرکوز تھی اک نگاہ سیہ اور عجب زاویے سے بنائے ہوئے تھی مجھے سر سے پا تک ہدف میں گیا اس طرف جس طرف ریت کی لہر تھی موج ذرات تھی میں نہیں جانتا اس گھڑی تیرگی ...

    مزید پڑھیے

    یہ کیسی گھڑی ہے

    یہ کند اور یخ بے نمو نیند جس میں شب ارتقا اور صبح حریرا کا تازہ عمل رائیگاں ہو رہا ہے شکستہ کناروں کے اندر مچلتی ہوئی سوختہ جان لہروں کا رقص زیاں ہو رہا ہے چراغ تحرک کف سست پر بے نشاں ہو رہا ہے مرے دہر کا طاق تہذیب جس پر مقدس صحیفہ نہیں اک ریاکار مشعل دھری ہے ہر اک شیشۂ پاک باز و ...

    مزید پڑھیے

    وہ عرصہ جو دوری میں گزرا

    میں کیسے بتاؤں وہ عرصہ جو دوری میں گزرا حضوری میں گزرا میں اس کی وضاحت نہیں کر سکوں گا سر شام ہی کوئی لا شکل کوت مجھے اپنے نرغے میں رکھتی مزا لیتی میرے نمک کا کبھی میری شیرینی چکھتی کبھی مجھ کو قطرے کبھی مجھ کو ذرے میں تبدیل کرتی کبھی مجھ کو ہیئت میں لاتی کبھی میری ہیئت کو تحلیل ...

    مزید پڑھیے

    مراتبِ وجود بھی عجیب ہیں

    اچانک اک شبیہ بے صدا سی جست بھر کے آئنے کے پاس سے گزر گئی سیاہ زرد دھاریاں کہ جیسے لہر ایک لہر سے جڑی ہوئی سنگار میز ایک دم لرز اٹھی کلاک کا طلائی عکس بھی دہل گیا بدن جو تھا بخار کے حصار میں پگھل گیا مراتب وجود بھی عجیب ہیں لہو کی کونیات میں صفات اور ذات میں عجب طرح کے بھید ...

    مزید پڑھیے

    خواب مزدور ہے

    خواب مزدور ہے رات دن سر پہ بھاری تغاری لیے سانس کی بانس کی ہانپتی کانپتی سیڑھیوں پر اترتا ہے چڑھتا ہے روپوش معمار کے حکم پر ایک لا شکل نقشے پہ اٹھتی ہوئی اوپر اٹھتی ہوئی گول دیوار کے خشت در خشت چکر میں محصور ہے خواب مزدور ہے! اک مشقت زدہ آدمی کی طرح میں حقیقت کی دنیا میں یا خواب ...

    مزید پڑھیے

    بڑا چکر لگائیں

    کسی دن آ پرانی کھائیوں کو پار کر کے دلدلوں میں پاؤں رکھیں نرسلوں کو کاٹ ڈالیں پیش منظر کے لیے رستہ بنائیں آ کسی دن دھند میں جکڑی ہوئی کانٹوں بھری یہ باڑ جس میں وقت کی بجلی رواں ہے جو زمیں و آسماں کو کاٹتی ہے بیچ سے اس کو ہٹائیں آ کسی دن جھولتے پل سے اتر کر نقشۂ تقویم میں پر پیچ ...

    مزید پڑھیے

    لال بیگ اڑ گیا

    طعام گاہوں کی بچی کھچی غذا پہ پل رہا تھا نم زدہ شگافوں گھن لگے درازوں میں چھپا ہوا وہ مطمئن تھا غیر مرئی نالیوں سے مین ہول تک غلاظتیں بہا کے لانے والی سست و تیز ساری لائنوں میں گھومتا تھا ایک روز ہست کی گرہ میں اس کی لانبی ٹانگ اک انوکھے پیچ میں الجھ گئی تو ٹیس درد کی اٹھی وجود ...

    مزید پڑھیے

    کہیں تم ابد تو نہیں ہو

    کہو کون ہو تم ازل سے کھڑے ہو نگاہوں میں حیرت کے خیمے لگائے افق کے گھنے پانیوں کی طرف اپنا چہرہ اٹھائے کہو کون ہو تم بتاؤ بتاؤ کہیں تم طلسم سماعت سے نا آشنا تو نہیں ہو کہیں تم وہ در تو نہیں ہو جو صدیوں کی دستک سے کھلتا نہیں یا قدیمی شکستہ سی محراب ہو جس میں کوئی چراغ رفاقت بھی جلتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4