Rafiq Sandelvi

رفیق سندیلوی

رفیق سندیلوی کی نظم

    گنبد نما شفاف شیشہ

    گنبد نما شفاف شیشہ محدب بیچ سے ابھرا ہوا گنبد نما شفاف شیشہ جس میں سے چیزیں بڑی معلوم ہوتی ہیں یہ دیکھو ایک چیونٹی ہشت پا مکڑے کی صورت چل رہی ہے اوس کا قطرہ مصفا حوض کے مانند ساکن لگ رہا ہے ریت کا ذرہ پہاڑی کی طرح افلاک کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے گھنے پانی میں جرثومے کی جنبش ...

    مزید پڑھیے

    کیک کا ایک ٹکڑا

    کہنہ تر زین بدلی گئی پھر نئی نعل بندی ہوئی اور فرس ہنہنایا سوار اب سواری پر مجبور تھا میں اکیلا عزا دار کتنے یگوں سے اٹھائے ہوئے جسم کا تعزیہ خود ہی اپنے جنم دن پہ مسرور تھا کپکپاتی چھری کیک کو وسط تک چیر کر رک گئی دل لرزنے لگا ضعف کی ماری پھونکوں نے ایک ایک کر کے بھڑکتی لوؤں کو ...

    مزید پڑھیے

    مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے

    مگرمچھ نے مجھے نگلا ہوا ہے اک جنین ناتواں ہوں جس گھڑی رکھی گئی بنیاد میری اس گھڑی سے تیرگی کے پیٹ میں ہوں خون کی ترسیل آنول سے غذا جاری ہے کچی آنکھ کے آگے تنی موہوم سی جھلی ہٹا کر دیکھتا ہوں! دیکھتا ہوں گرم گہرے لیس کے دریا میں کچھووں، مینڈکوں جل کیکڑوں کے پارچوں میں اوجھڑی کے ...

    مزید پڑھیے

    وہی مخدوش حالت

    ہمیشہ سے وہی مخدوش حالت ایک آدھی مینگنی دم سے لگی ہے ناک میں بلغم بھرا ہے ہڈیاں ابھری ہوئی ہیں پشت کی دو روز پہلے ہی منڈی ہے اون میری سردیوں کے دن ہیں چٹیل بے نمو میدان میں ریوڑ کے اندر سر جھکائے گھاس کی امید میں مدھم شکستہ چال چلتا خشک ڈنٹھل اور پولیتھین کے مردہ لفافوں کو ...

    مزید پڑھیے

    عجیب ما فوق سلسلہ تھا

    عجیب ما فوق سلسلہ تھا شجر جڑوں کے بغیر ہی اگ رہے تھے خیمے بغیر چوبوں کے اور طنابوں کے آسرے کے زمیں پہ استادہ ہو رہے تھے چراغ لو کے بغیر ہی جل رہے تھے کوزے بغیر مٹی کے چاک پر ڈھل رہے تھے دریا بغیر پانی کے بہہ رہے تھے سبھی دعائیں گرفتہ پا تھیں رکی ہوئی چیزیں قافلہ تھیں پہاڑ بارش کے ...

    مزید پڑھیے

    مہرباں فرش پر

    اک معلق خلا میں کہیں ناگہاں مہرباں فرش پر پاؤں میرا پڑا میں نے دیکھا کھلا ہے مرے سامنے زر نگار و منقش بہت ہی بڑا ایک در خواب کا مہرباں فرش کے مرمریں پتھروں سے ہویدا ہوا عکس مہتاب کا میں نے ہاتھ اپنے آگے بڑھائے اور اس کو چھوا گھنٹیاں میرے کانوں میں بجنے لگیں جاوداں اور غنائی رفاقت ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سا مبہوت عاشق

    کیسی مخلوق تھی آگ میں اس کا گھر تھا الاؤ کی حدت میں مواج لہروں کو اپنے بدن کی ملاحت میں محسوس کرتی تھی لیکن وہ اندر سے اپنے ہی پانی سے ڈرتی تھی کتنے ہی عشاق اپنی جوانی میں پانی میں اک ثانیہ اس کو چھونے کی خواہش میں نیچے عمق میں بہت نیچے اترے مگر پھر نہ ابھرے سمندر نے منتھن سے ان کے ...

    مزید پڑھیے

    جھلملاتی ہوئی نیند سن

    اے چراغوں کی لو کی طرح جھلملاتی ہوئی نیند، سن میرا ادھڑا ہوا جسم بن خواب سے جوڑ لہروں میں ڈھال اک تسلسل میں لا نقش مربوط کر نرم، ابریشمیں کیف سے میری درزوں کو بھر میری مٹی کے ذرے اٹھا میری وحشت کے بکھرے ہوئے سنگ ریزوں کو چن اے چراغوں کی لو کی طرح جھلملاتی ہوئی نیند، سن میرا ...

    مزید پڑھیے

    درد ہوتا ہے

    بہر کیف جو درد ہوتا ہے وہ درد ہوتا ہے ایڑی میں کانٹا چبھے تو بدن تلملاتا ہے دل ضبط کرتا ہے روتا ہے جو برگ ٹہنی سے گرتا ہے وہ زرد ہوتا ہے چکی کے پاٹوں میں دانے تو پستے ہیں پانی سے نکلے تو مچھلی تڑپتی ہے طائر قفس میں گرفتار ہوں تو پھڑکتے ہیں بادل سے بادل ملیں تو کڑکتے ہیں بجلی چمکتی ...

    مزید پڑھیے

    سواری اونٹ کی ہے

    سواری اونٹ کی ہے اور میں شہر شکستہ کی کسی سنساں گلی میں سر جھکائے ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر اس گھر کی جانب جا رہا ہوں جس کی چوکھٹ پر ہزاروں سال سے اک غم زدہ عورت مرے وعدے کی رسی ریشۂ دل سے بنی مضبوط رسی سے بندھی ہے آنسوؤں سے تر نگاہوں میں کسی کہنہ ستارے کی چمک لے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4