Rafiq Sandelvi

رفیق سندیلوی

رفیق سندیلوی کی نظم

    سمے ہو گیا

    پھر مقام رفاقت پہ مدغم ہوئیں سوئیاں دونوں گھڑیال کی رفت و آمد کے چکر میں گھنٹے کی آواز میں میرا دل کھو گیا اپنی ٹک ٹک میں بہتا رہا وقت کتنا سمے ہو گیا! سالہا سال پانی کے چشمے سے گیلے کیے لب عناصر نے جلتے الاؤ پہ ہاتھ اپنے تاپے مظاہر نے سینے کی دھڑکن سے نادید کے رنگ و روغن سے اشیا ...

    مزید پڑھیے

    جاؤ اب روتے رہو

    تم نہیں جانتے اس دھند کا قصہ کیا ہے دھند جس میں کئی زنجیریں ہیں ایک زنجیر کسی پھول کسی شبد کسی طائر کی ایک زنجیر کسی رنگ کسی برق کسی پانی کی زلف و رخسار لب و چشم کی پیشانی کی تم نہیں جانتے اس دھند کا زنجیروں سے رشتہ کیا ہے یہ فسوں کار تماشا کیا ہے! تم نے بس دھند کے اس پار سے تیروں ...

    مزید پڑھیے

    مگر وہ نہ آیا

    میں نے آواز دی اور حصار رفاقت میں اس کو بلایا مگر وہ نہ آیا گل خواب کی پتیاں دھوپ کی گرم راحت میں گم تھیں مرے جسم پر نرم بارش کی بوندیں بھی گھوڑے کا سم تھیں زمیں ایک انبوہ ہجراں میں اس چاپ کی منتظر تھی جو لا علم پھیلاؤ میں منتشر تھی پرندے سبک ریشمیں ٹہنیاں اپنی منقار میں تھام کر اڑ ...

    مزید پڑھیے

    بُرادہ اڑ رہا ہے

    برادہ اڑ رہا ہے ترمرے سے ناچتے ہیں دیدۂ نمناک میں براق سائے رینگتے ہیں راہداری میں برادہ اڑ رہا ہے ناک کے نتھنے میں نلکی آکسیجن کی لگی ہے گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے ہچکی سی بندھی ہے اک غشی ہے میرا حاضر میرے غائب سے جدا ہے کیا بتاؤں ماجرا کیا ہے! زمانوں قبل ہم دونوں کا رستہ پوٹلی میں ...

    مزید پڑھیے

    یہ سجیلی مورتی

    اے ہوا پھر سے مجھے چھو کر قسم کھا صحن میں کس نے قدم رکھا تھا چپکے سے یہاں سے کون مٹی لے گیا تھا وقت کی تھالی میں کس نے لا کے رکھ دی جھلملاتی لو کے آگے رقص کرتی یہ سجیلی مورتی جس کے نقوش جسم روشن ہو رہے ہیں ویشیا کے ہونٹ فربہ پاؤں جیسے اک گرھستن کے خمیری پیٹ میں مخمل کی لہریں نوری و ...

    مزید پڑھیے

    مجھے اپنا جلوہ دکھا

    ستارے مجھے اپنا جلوہ دکھا وقت کے کس خلا میں مظاہر کی کس کہکشاں میں زمانے کے کس دب اکبر میں تیرا ٹھکانہ ہے لاکھوں برس سے تجھے دیکھنے کی طلب میں جوں ہی شام ڈھلتی ہے میں خود بہ خود کھنچتا آتا ہوں اس غار شب میں! عجب غار ہے ایک بازار ہے سیل لمعات کا آئنے نصب ہیں رنگ اڑتے ہیں شیشوں کے ...

    مزید پڑھیے

    بیج اندر ہے

    بیج اندر ہے لیکن میں باہر ہوں اپنی زمیں سے فقط مشت دو مشت اوپر خلا میں اگا ہوں مری کوئی جڑ ہی نہیں ہے نہیں علم تالیف کی روشنی نے ہوا اور پانی نے کس طرح سینچا نمی کیسے میرے مساموں میں آئی جدائی سہی میں نے کیسے مقرر جو ازلوں سے تھا بیچ کا فاصلہ وسط نا وسط کا مرحلہ میں نے کیسے گوارا ...

    مزید پڑھیے

    بڑا پر ہول رستہ تھا

    بڑا پر ہول رستہ تھا بدن کے جوہر خفتہ میں کوئی قوت لاہوت مدغم تھی کسی غول بیابانی کی گردش میرے دست و پا کی محرم تھی دہان جاں سے خارج ہونے والی بھاپ میں تھے سالمات درد روشن گزر گاہوں کے سب نا معتبر پتھر خلا میں اڑنے والی پست مٹی کے سیہ ذرے پہاڑ اور آئنے سائے کرے پیڑوں کے پتے پانیوں ...

    مزید پڑھیے

    اسی آگ میں

    اسی آگ میں مجھے جھونک دو وہی آگ جس نے بلایا تھا مجھے ایک دن دم شعلگی دم شعلگی مرا انتظار کیا بہت کئی خشک لکڑیوں شاخچوں، کے حصار میں جہاں برگ و بار کا ڈھیر تھا دم شعلگی مجھے ایک پتے نے یہ کہا تھا گھمنڈ سے ادھر آ کے دیکھ کہ اس تپیدہ خمار میں ہمیں ہم ہیں لکڑیوں شاخچوں کے حصار میں یہاں ...

    مزید پڑھیے

    ابھی وقت ہے لوٹ جاؤ

    سنو کثرت خاک میں بسنے والو سنو توسن برق رفتار پر کاٹھیاں کسنے والو یہ پھر کون سے معرکے کا ارادہ تمہاری نسوں میں یہ کس خواب فاتح کا پھر باب وحشت کھلا ہے فصیلوں پہ اک پرچم خوں چکاں گاڑ دینے کی نیت کئی لاکھ مفتوح جسموں کو پھر حالت سینہ کوبی میں روتے ہوئے دیکھنے کی تمنا یہ کس آب ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4