Rafiq Sandelvi

رفیق سندیلوی

رفیق سندیلوی کی غزل

    مرا پاؤں زیر زمین ہے پس آسماں مرا ہاتھ ہے

    مرا پاؤں زیر زمین ہے پس آسماں مرا ہاتھ ہے کہیں بیچ میں مرا جسم ہے کہیں درمیاں مرا ہاتھ ہے یہ نجوم ہیں مری انگلیاں یہ افق ہیں میری ہتھیلیاں مری پور پور ہے روشنی کف کہکشاں مرا ہاتھ ہے مرے جبر میں ہیں لطافتیں مری قدر میں ہیں کثافتیں کبھی خالق شب تار ہے کبھی ضو فشاں مرا ہاتھ ہے کسی ...

    مزید پڑھیے

    سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں

    سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں میں نقطہ ہائے گریہ پر اکٹھا ہو کے آتا ہوں ادھر رستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے میں خاک اور خون سے لتھڑی رکابیں دھو کے آتا ہوں یہاں اک دشت میں فرعون کا اہرام بنتا ہے میں اپنی پشت پر چوکور پتھر ڈھو کے آتا ہوں ابھی کچھ بازیابی کا عمل ...

    مزید پڑھیے

    اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا

    اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا مرے نجم آب مجھے بتا وہ کہاں گیا جو لکیر پانی پہ نقش تھی وہ کدھر گئی جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا کہاں ٹوٹے میری طناب جسم کے حوصلے جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی کدھر گئی وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں ...

    مزید پڑھیے

    اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا

    اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا وہ اندھا داؤ پر اب کے مری آنکھیں لگا دے گا مسلسل اجنبی چاپیں اگر گلیوں میں اتریں گی وہ گھر کی کھڑکیوں پر اور بھی میخیں لگا دے گا فصیل سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرہ ہو کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا میں اس زرخیز موسم میں بھی ...

    مزید پڑھیے

    انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا

    انا کو خود پر سوار میں نے نہیں کیا تھا تمہارے پیچھے سے وار میں نے نہیں کیا تھا وہ خود گرا تھا لہو فروشی کی پستیوں میں اسے نحیف و نزار میں نے نہیں کیا تھا پکے ہوئے پھل ہی توڑے تھے میں نے ٹہنیوں سے شجر کو بے برگ و بار میں نے نہیں کیا تھا نشانہ باندھا تھا آشیانوں کی سمت لیکن کوئی ...

    مزید پڑھیے

    اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا

    اسے شوق غوطہ زنی نہ تھا وہ کہاں گیا مرے نجم آب مجھے بتا وہ کہاں گیا جو لکیر پانی پہ نقش تھی وہ کہاں گئی جو بنا تھا خاک پہ زائچہ وہ کہاں گیا کہاں ٹوٹے میری طناب جسم کے حوصلے جو لگا تھا خیمہ وجود کا وہ کہاں گیا جو زمین پاؤں تلے بچھی تھی کدھر گئی وہ جو آسمان سروں پہ تھا وہ کہاں ...

    مزید پڑھیے

    میں ہوا کو منجمد کر دوں تو کیسے سانس لوں

    میں ہوا کو منجمد کر دوں تو کیسے سانس لوں ریت پر گر جاؤں اور پھر اکھڑے اکھڑے سانس لوں کب تلک روکے رکھوں میں پانیوں کی تہہ میں سانس کیوں نہ اک دن سطح دریا سے نکل کے سانس لوں قلعۂ کہسار پر میں رکھ تو دوں زریں چراغ لیکن اتنی شرط ہے کہ اس کے بدلے سانس لوں خواب کے متروک گنبد سے نکل کر ...

    مزید پڑھیے

    جھکا ہوا ہے جو مجھ پر وجود میرا ہے

    جھکا ہوا ہے جو مجھ پر وجود میرا ہے خود اپنے غار کا پتھر وجود میرا ہے یہ چاپ، تیرگی، نیچے کو جا رہا زینہ اسی سرنگ کے اندر وجود میرا ہے نہیں ہے اس میں کسی کی شراکت نفسی یہ بات طے ہے سراسر وجود میرا ہے مشابہ دونوں ہیں پھر بھی رخ تمنا سے ترے وجود سے بڑھ کر وجود میرا ہے یہ حد خیرگی ...

    مزید پڑھیے

    خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے

    خطا ہونے لگے تھے رعد سے اوسان میرے عجب شور قیامت میں گھرے تھے کان میرے فضا میں ایک لحظے کے لیے جب برق چمکی اندھیری رات سے طے ہو گئے پیمان میرے لہو جمنے کے نقطے پر جو پہنچا تو اچانک الٹ ڈالے ہوا نے مجھ پہ آتش دان میرے میں مٹی آگ اور پانی کی صورت منتشر تھا پھر اک دن سب عناصر ہو گئے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ روز میں اس خاک کے پردے میں رہوں گا

    کچھ روز میں اس خاک کے پردے میں رہوں گا پھر دور کسی نور کے ہالے میں رہوں گا رکھوں گا کبھی دھوپ کی چوٹی پہ رہائش پانی کی طرح ابر کے ٹکڑے میں رہوں گا یہ شب بھی گزر جائے گی تاروں سے بچھڑ کر یہ شب بھی میں کہسار کے درے میں رہوں گا سورج کی طرح موت مرے سر پہ رہے گی میں شام تلک جان کے خطرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2