Rafiq Sandelvi

رفیق سندیلوی

رفیق سندیلوی کی غزل

    عجب اک سایۂ لاہوت میں تحلیل ہوگی

    عجب اک سایۂ لاہوت میں تحلیل ہوگی فسون حشر سے ہیئت مری تبدیل ہوگی کیے جائیں گے میرے جسم میں نوری اضافے کسی روشن ستارے پر مری تکمیل ہوگی دیا جائے گا غسل اولیں میرے بدن کو طلسمی باغ ہوگا اس کے اندر جھیل ہوگی کبھی پہنچے گا حس سامعہ تک حرف خفتہ کبھی آواز نا معلوم کی ترسیل ...

    مزید پڑھیے

    مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

    مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر معلوم ہوا ہے یہ پرندوں کی زبانی تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھپے ہوں تو شہر اماں میں بھی نہ بے خوف ...

    مزید پڑھیے

    زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لیے

    زمین پاؤں تلے سر پہ آسمان لیے ندائے غیب کو جاتا ہوں بہرے کان لیے میں بڑھ رہا ہوں کسی رعد ابر کی جانب بدن کو ترک کئے اور اپنی جان لیے یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے بس ایک خواب لیا اور چند شمع دان لیے میں سطح آب پہ اپنے قدم جما لوں گا بدن کی آگ لیے اور کسی کا دھیان لیے میں چل ...

    مزید پڑھیے

    خیمۂ خواب کی طنابیں کھول

    خیمۂ خواب کی طنابیں کھول قافلہ جا چکا ہے آنکھیں کھول اے زمیں میرا خیر مقدم کر تیرا بیٹا ہوں اپنی بانہیں کھول ڈوب جائیں نہ پھول کی نبضیں اے خدا موسموں کی سانسیں کھول فاش کر بھید دو جہانوں کے مجھ پہ سربستہ کائناتیں کھول پڑ نہ جائے نگر میں رسم سکوت قفل لب توڑ دے زبانیں کھول

    مزید پڑھیے

    کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں

    کبھی زخمی کروں پاؤں کبھی سر پھوڑ کر دیکھوں میں اپنا رخ کسی جنگل کی جانب موڑ کر دیکھوں سمادھی ہی لگا لوں اب کہیں ویران قبروں پر یہ دنیا ترک کر دوں اور سب کچھ چھوڑ کر دیکھوں مجھے گھیرے میں لے رکھا ہے اشیا و مظاہر نے کبھی موقع ملے تو اس کڑے کو توڑ کر دیکھوں اڑا دوں سبز پتوں میں ...

    مزید پڑھیے

    میں اک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے

    میں اک پہاڑی تلے دبا ہوں کسے خبر ہے بڑی اذیت میں مبتلا ہوں کسے خبر ہے کسے خبر ہے کہ میرا ہر عکس گم ہوا ہے میں ایک خم دار آئینہ ہوں کسے خبر ہے کسی کو کیا علم ہے کہ میں کس مدار میں ہوں میں ایک بے انت فاصلہ ہوں کسے خبر ہے عجب شب و روز کا تصادم ہوا ہے مجھ میں میں اک ستارہ ہوں یا ہوا ہوں ...

    مزید پڑھیے

    نیند کے آب رواں کو مات دینے آؤں گا

    نیند کے آب رواں کو مات دینے آؤں گا اے شب نا خواب تیرا ساتھ دینے آؤں گا جب ستارے نقطۂ انفاس پر بجھ جائیں گے میں خدا کو جان بھی اس رات دینے آؤں گا نور کی موجیں مرے ہم راہ ہوں گی اور میں رات کے ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دینے آؤں گا آسماں کے نیلے گنبد سے نکل کر ایک دن میں زمیں کو قرمزی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2