سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں

سحر تک اس پہاڑی کے عقب میں رو کے آتا ہوں
میں نقطہ ہائے گریہ پر اکٹھا ہو کے آتا ہوں


ادھر رستے میں چوتھے کوس پر تالاب پڑتا ہے
میں خاک اور خون سے لتھڑی رکابیں دھو کے آتا ہوں


یہاں اک دشت میں فرعون کا اہرام بنتا ہے
میں اپنی پشت پر چوکور پتھر ڈھو کے آتا ہوں


ابھی کچھ بازیابی کا عمل معکوس لگتا ہے
میں جب بھی ڈھونڈنے جاتا ہوں خود کو کھو کے آتا ہوں


جہاں پرچھائیں تک پڑتی نہیں ہے خاک زادوں کی
اسی خالی کرے پر سات موسم سو کے آتا ہوں