پیش منظر میں ہے کچھ اور کچھ پس منظر میں ہے

پیش منظر میں ہے کچھ اور کچھ پس منظر میں ہے
کچھ حقیقت کچھ فسانہ رام اور بابر میں ہے


غم کے مارو مختصر ہے عرصۂ تیرہ شبی
اور اس کے بعد سب کچھ پنجۂ داور میں ہے


خواب سارے ہو گئے ہیں نیند سے اب ماورا
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے


حال ماضی اور مستقبل سبھی تو اس کے ہیں
ہستی اپنی اس کی خاطر صیغۂ مصدر میں ہے


قاتلا خنجر ترا اس آب سے محروم ہے
اک چمک بجلی سی جو بسمل کے اب تیور میں ہے


چار سو اک ہو کا عالم ہر طرف سناٹا ہے
اب قمرؔ بھی یوں ہی سا بیکار بیٹھا گھر میں ہے