ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا
ہماری نیند کوئی سو گیا ہے کیا
جو تھا خوابوں کا زیور کھو گیا ہے کیا
سبھی چہروں پہ ہے کیوں بد حواسی اب
سبھی کا جیسے یاں کچھ کھو گیا ہے کیا
کوئی فریاد اب سنتا نہیں وہ بھی
کہیں پر چیف جسٹس ہو گیا ہے کیا
یہ کیوں تالاب دریا اور سمندر ہیں
یہاں پر کوئی آ کر رو گیا ہے کیا
قمرؔ کا آئنے میں صرف چہرہ ہے
سراپا بھیڑ میں اب کھو گیا ہے کیا
یوں ہی شاداب چہرہ ہو نہیں سکتا
چھلک کر اشک چہرہ دھو گیا ہے کیا
اگے ہیں چار سو نفرت کے پودے کیوں
دلوں میں زہر کوئی بو گیا ہے کیا