حیات رقص میں ہے کائنات رقص میں ہے

حیات رقص میں ہے کائنات رقص میں ہے
چراغ بادہ جلاؤ کہ رات رقص میں ہے


ستارے آئے ہیں ذروں کی بندگی کے لیے
نوید صبح مبارک حیات رقص میں ہے


کچھ اس ادا سے چلا قافلہ گناہوں کا
نمود صبح سے اب تک نجات رقص میں ہے


ہے ایک حشر سا برپا زمیں کے سینے میں
کچھ اس طرح نفس حادثات رقص میں ہے


یہ کون موت کے چہرے پہ مل گیا کالک
فنا کی آنکھیں ہیں نم اور ثبات رقص میں ہے


قریب ہی کہیں پیاسوں کا قافلہ تو نہیں
مچل رہے ہیں کنارے فرات رقص میں ہے


خدا پہ جب سے برا وقت آ گیا قیصرؔ
حبل کے لب پہ ہے نغمہ منات رقص میں ہے