اک بھیڑ ہے جلووں کی اور میری نظر تنہا

اک بھیڑ ہے جلووں کی اور میری نظر تنہا
ہے آئنہ خانے میں خود آئینہ گر تنہا


ان پاؤں کے چھالوں سے پوچھو یہ بتائیں گے
طے کیسے کیا ہم نے شعلوں کا سفر تنہا


جلتے ہوئے موسم میں اس طرح وہ ہنستا ہے
صحرا میں ہنسے جیسے کوئی گل تر تنہا


کیا جانئے کیوں مجھ پر یہ خاص عنایت ہے
کیا جانئے جلتا ہے کیوں میرا ہی گھر تنہا


اک شور قیامت ہے اور بھیڑ ہے چہروں کی
اس دور میں رہتا ہے ہر شخص مگر تنہا


تنہائی کا غم تم کو اس وقت مزہ دے گا
میری ہی طرح تم بھی ہو جاؤ اگر تنہا