عشق کا مرکز ہے جو اس لڑکے کو لائے کوئی

عشق کا مرکز ہے جو اس لڑکے کو لائے کوئی
کب تلک پاگل پھرے گی لڑکی بتلائے کوئی


اس کے وعدے اس کی یادیں سب ہیں اس دل میں رکھے
اب ہے دھڑکا اس تجوری کو نہ لے جائے کوئی


اس سے ہی ہیں سارے موسم اس کا مسکانا بہار
کھل کے وہ ہنس دے کبھی اور میگھ برسائے کوئی


پھر تری آواز کے دھوکے میں کھڑکی تک گئے
جھانک کر دیکھا پرندہ راگنی گائے کوئی


آنکھیں سترنگی ہیں اس کی گل مہر سے لب بنے
مسکراہٹ وہ نشہ جوگن بہک جائے کوئی


سہہ نہیں پائے عذاب ہجر یہ ہے اور بات
اس گناہ عشق پر لیکن نہ پچھتائے کوئی


یہ ادب کا ہے مقام اب رہنے دے یہ مشورے
عقل لازم ہے خموشی دل کو جب بھائے کوئی


زندگی دل کی تو ہے محتاج بس اس ایک کی
ورنہ یوں تو چاہے جتنے عشق فرمائے کوئی


مر چکی ہیں ٹہنیاں جو سوکھ کر لاؤ ادھر
میرے ہاتھوں میں ہے مٹی پانی برسائے کوئی


دن ڈھلے گا رات ہوگی ہم گزرتے جائیں گے
آئے تھے کیوں جائیں گے کیوں ہم کو سمجھائے کوئی