تم کبھی میری طرح برباد ہو کر دیکھنا

تم کبھی میری طرح برباد ہو کر دیکھنا
میں نے جو اک عمر دیکھا اس کو پل بھر دیکھنا


آنکھ کی خاموشیوں میں کتنے طوفاں ہیں چھپے
ایک موج یاد بس اور پھر وہ منظر دیکھنا


ساتھ تھے تو جذبوں میں احساس شدت کچھ نہ تھا
وقت رخصت دونوں کا وہ آنکھ بھر بھر دیکھنا


یوں تو کچھ کمتر نہیں ہے ہر کسی کو چاہنا
دل کا سب اسباب لیکن اک کو دے کر دیکھنا


آشنا نظریں تو کب کی ہو گئیں نا آشنا
پھر بھی عادت سی ہے آتے جاتے وہ گھر دیکھنا


مردہ آنکھیں دیکھنے سے بڑھ کے وحشت ناک ہے
زندہ آنکھوں میں کسی کی موت کا ڈر دیکھنا