تیشہ بدست
کب سے ان پہاڑوں کے سینے چیر چیر کر
ان کی رگیں کھوج کھوج کر
لعل و جواہر نکال رہا ہوں
ڈھیروں کے ڈھیر لگا رہا ہوں
بظاہر بہت خوش ہوں
کہ لعل و جواہر کے یہ انبار میں نے لگائے ہیں
بہ باطن البتہ اداس ہوں
کہ وہ لعل جس کی مجھے تلاش ہے
ہنوز میری دسترس سے پرے ہے
دراصل وہ پہاڑ ابھی تک
میری آنکھ سے اوجھل ہے
جس میں وہ رگ ہے
جس رگ میں اس لعل کے
ہونے کی امید ہے