Pratap Somvanshi

پرتاپ سوم ونشی

پرتاپ سوم ونشی کی غزل

    میرے بچہ فٹ پاتھوں سے ادلا بدلی کر آئے ہیں

    میرے بچہ فٹ پاتھوں سے ادلا بدلی کر آئے ہیں چند کھلونے دے آئے ہیں ڈھیروں خوشیاں گھر لائے ہیں سوکھا، بارش کے ماروں کا دکھ کب جا کر ختم ہوا سورج دیکھ کے ڈر جائے ہیں بادل دیکھ کے گھبرائے ہیں میرے جیسے مانگ سکیں کچھ کتنا مشکل ہوتا ہے سکوچائے ہیں شرمائے ہیں گھبرائے ہیں ہکلائے ...

    مزید پڑھیے

    ادھر باتیں چھپانے لگ گیا ہے

    ادھر باتیں چھپانے لگ گیا ہے وہ کچھ کچھ دور جانے لگ گیا ہے اکیلے میں ہنسانے لگ گیا ہے بہت ہی یاد آنے لگ گیا ہے صبح دن شام راتیں جی اٹھی ہے کہ وہ قصے سنانے لگ گیا ہے اداسی اس کی خنجر سی چبھے ہے مجھے کچھ یوں ستانے لگ گیا ہے اٹک جاتا ہے جب بھی بولتا ہے بہانے جو بنانے لگ گیا ہے

    مزید پڑھیے

    یہ جو اک لڑکی پہ ہیں تینات پہرے دار سو

    یہ جو اک لڑکی پہ ہیں تینات پہرے دار سو دیکھتی ہیں اس کی آنکھیں بھیڑیے خوں خوار سو دقتیں اکثر وہ میری بانٹتی ہے اس طرح اپنے بکسے سے نکالے گی ابھی دو چار سو آئیں گی جب مشکلیں تو وہ بچا لے گا مجھے اک بھروسہ دے گا اور کروائے گا بیگار سو ریس میں ہوگی سڑک پر زندگی کی گاڑیاں ایک اسی پر ...

    مزید پڑھیے

    امیدوں کے پنچھی کے پر نکلیں گے

    امیدوں کے پنچھی کے پر نکلیں گے میرے بچے مجھ سے بہتر نکلیں گے لکشمن ریکھا بھی آخر کیا کر لے گی سارے راون گھر کے اندر نکلیں گے دل تو اسٹیشن کے رستے چلا گیا پاؤں ہمارے تھوڑا سو کر نکلیں گے اچھی اچھی باتیں تو سب کرتے ہیں ان میں سے ہی بد سے بد تر نکلیں گے بازاروں کے دستوروں سے واقف ...

    مزید پڑھیے

    بجھا لی پیاس جو اس نے رہا ندی کا نہیں

    بجھا لی پیاس جو اس نے رہا ندی کا نہیں غرض کا اپنی سگا ہے وہ آدمی کا نہیں عجیب چاہ ہے اس کی بھی دیکھیے تو ذرا سبھی ہوں اس کے بھلے وہ ہوا کسی کا نہیں خوشی میں اس کی نہ آئے نظر اداس کوئی مگر اداسی میں اس کی گزر خوشی کا نہیں میں اس کے چہرے پہ لوٹی ہوئی چمک کا گواہ کہا جو دکھ ہے یہ میرا ...

    مزید پڑھیے

    رام تمہارے یگ کا راون اچھا تھا

    رام تمہارے یگ کا راون اچھا تھا دس کے دس چہرے سب باہر رکھتا تھا دکھ دے کر ہی چین کہاں تھا ظالم کو ٹوٹ پڑا تھا چہرے پر وہ پڑھتا تھا شام ڈھلے یہ ٹیس تو بھیتر اٹھتی ہے میرا خود سے ہر اک وعدہ جھوٹا تھا یہ بھی تھا کہ دل کو کتنا سمجھا لو بات غلط ہوتی تھی تو وہ لڑتا تھا میرے دور کو کچھ ...

    مزید پڑھیے

    رشتے کے الجھے دھاگوں کو دھیرے دھیرے کھول رہی ہے

    رشتے کے الجھے دھاگوں کو دھیرے دھیرے کھول رہی ہے بٹیا کچھ کچھ بول رہی ہے پورے گھر میں ڈول رہی ہے دل کے کہے سے آنکھوں نے بازار میں اک سامان چنا ہے ہاتھ بچارا سوچ رہا ہے جیب بھی خود کو تول رہی ہے رات کی آنکھیں بانچ رہا ہوں کچھ کچھ تو میں بھانپ رہا ہوں کچھ کچھ اندر سوچ رہی ہے کچھ کچھ ...

    مزید پڑھیے

    خود کو کتنی دیر منانا پڑتا ہے

    خود کو کتنی دیر منانا پڑتا ہے لفظوں کو جب رنگ لگانا پڑتا ہے چوٹی تک پہنچی راہوں سے سیکھو بھی کیسے پربت کاٹ کے آنا پڑتا ہے بچوں کی مسکان بہت ہی مہنگی ہے دو دو پیسے روز بچانا پڑتا ہے سچ کا کپڑا پھول سے ہلکا ہوتا ہے جھوٹ کا پربت لاد کے جانا پڑتا ہے سورج کو گالی دینے کا فیشن ...

    مزید پڑھیے

    ریاست جب بھی ڈہتی ہے نواسے دکھ اٹھاتے ہیں

    ریاست جب بھی ڈہتی ہے نواسے دکھ اٹھاتے ہیں کہیں پنچر بناتے ہیں کہیں ٹانگہ چلاتے ہیں بڑی مشکل سے یہ دو وقت کی روٹی کماتے ہیں سحر سے شام تک فٹ پاتھ پر قسمت بناتے ہیں جمورا سر کھجاتا ہے مداری ہاتھ ملتا ہے تماشا دیکھ کر بد معاش بچے بھاگ جاتے ہیں کسی کے ساتھ رہنا اور اس سے بچ کے رہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ جو چہرہ پے مسکراہٹ ہے

    یہ جو چہرہ پے مسکراہٹ ہے اک سجاوٹ ہے اک بناوٹ ہے مجھ میں تجھ میں بس ایک رشتہ ہے تیرے اندر بھی کھٹ پٹاہٹ ہے کچھ تقاضے ہیں کچھ ادھاری ہے عمر کا بوجھ ہے تھکاوٹ ہے ہر کوئی پڑھ سمجھ نہ پائے گا وقت کے ہاتھ کی لکھاوٹ ہے گالیوں کی طرح ہی لگتی ہے یہ جو نقلی سی مسکراہٹ ہے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 3