میرے بچہ فٹ پاتھوں سے ادلا بدلی کر آئے ہیں

میرے بچہ فٹ پاتھوں سے ادلا بدلی کر آئے ہیں
چند کھلونے دے آئے ہیں ڈھیروں خوشیاں گھر لائے ہیں


سوکھا، بارش کے ماروں کا دکھ کب جا کر ختم ہوا
سورج دیکھ کے ڈر جائے ہیں بادل دیکھ کے گھبرائے ہیں


میرے جیسے مانگ سکیں کچھ کتنا مشکل ہوتا ہے
سکوچائے ہیں شرمائے ہیں گھبرائے ہیں ہکلائے ہیں


سب کے حصے ایک صفر تھا راجہ رنک برابر تھے
جو بھی تھے سب جوڑ رہے تھے کیا کھوئے کیا پائے ہیں


بچوں میں احساس کے پودے جو ہم نے تب روپ دیئے تھے
دنیا والوں آؤ دیکھو اب اس میں پھل آئے ہیں


اس کی باتوں میں یہ جو چنگاری چمکا کرتی ہیں
اس کے دل کے اندر جانے کتنے پتھر ٹکرائے ہیں