رشتے کے الجھے دھاگوں کو دھیرے دھیرے کھول رہی ہے
رشتے کے الجھے دھاگوں کو دھیرے دھیرے کھول رہی ہے
بٹیا کچھ کچھ بول رہی ہے پورے گھر میں ڈول رہی ہے
دل کے کہے سے آنکھوں نے بازار میں اک سامان چنا ہے
ہاتھ بچارا سوچ رہا ہے جیب بھی خود کو تول رہی ہے
رات کی آنکھیں بانچ رہا ہوں کچھ کچھ تو میں بھانپ رہا ہوں
کچھ کچھ اندر سوچ رہی ہے کچھ کچھ باہر بول رہی ہے
ایک اکیلا کچھ بھی بولے کون شہر میں اس کی سنتا
پیڑ پہ ایک اکیلی بلبل جنگل میں رس گھول رہی ہے
جب بھی خود کے ہاتھ جلے تب بات یہ سب کو یاد آتی ہے
بچپن میں جو سیکھ ملی تھی اب تک وہ انمول رہی ہے