پنہاں کے تمام مواد

19 غزل (Ghazal)

    اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں

    اے دل تری بربادی کے آثار بہت ہیں شہکار کے بہروپ میں فن کار بہت ہیں ناواقف آداب محبت کو سزا کیا اے حسن ازل تیرے خطا کار بہت ہیں یادوں کی بہاریں بھی ہیں ویرانۂ دل میں اس دشت بیاباں میں یہ گلزار بہت ہیں یہ وقت کی سازش ہے کہ سورج کی شرارت سائے مری دیوار کے اس پار بہت ہیں دل خود جو ...

    مزید پڑھیے

    بہت آزاد ہوتا جا رہا ہے

    بہت آزاد ہوتا جا رہا ہے یہ دل برباد ہوتا جا رہا ہے سبھی آموختوں کو بھول جاؤں سبق یہ یاد ہوتا جا رہا ہے خدا کے نام پر دنیا میں کیا کیا ستم ایجاد ہوتا جا رہا ہے مجھے لگتا ہے اب میرا ہی قیدی مرا صیاد ہوتا جا رہا ہے جو سچ پوچھو غزل کا فن تو پنہاںؔ خود اپنی داد ہوتا جا رہا ہے

    مزید پڑھیے

    نظر نواز نظر کا یہ زاویہ کیوں ہے

    نظر نواز نظر کا یہ زاویہ کیوں ہے نمود عکس پہ حیران آئینہ کیوں ہے زباں پہ حرف انا الحق لرز رہا ہے کیوں جنون عشق تذبذب کا مرحلہ کیوں ہے وہی ہے منزل آخر جہاں سفر آغاز بندھا ہوا مرے قدموں سے دائرہ کیوں ہے حیات و موت کا مقصد اگر نہیں معلوم شکست و ریخت کا بے کار سلسلہ کیوں ہے یہ کس ...

    مزید پڑھیے

    خبر کہاں تھی مرے علم اکتسابی کو

    خبر کہاں تھی مرے علم اکتسابی کو کتاب دل ہے بہت حق کی بازیابی کو وہ ضبط شوق جو بنیاد ضبط مے خانہ اسی کا ہوش نہ ساقی کو نہ شرابی کو ابھی کہاں ہے مرے زخم دل کی وہ رنگت گلاب دیکھ کے جل جائے جس گلابی کو خدا کے سامنے انسان کی طرف داری عزیز رکھتا ہے دل اپنی اس خرابی کو غزل کو ڈر ہے کہ ...

    مزید پڑھیے

    تا ابد حاصل ازل ہوں میں

    تا ابد حاصل ازل ہوں میں یا فقط لقمۂ اجل ہوں میں خود کو بھی خود سے ماورا چاہوں اپنی ہستی میں کچھ خلل ہوں میں میرا ہر مسئلہ اسی کا ہے اس کے ہر مسئلے کا حل ہوں میں اس کی آنکھوں کا آئینہ خانہ جھیل میں جیسے اک کنول ہوں میں گنگناتی رہی جسے پنہاںؔ مجھ کو لگتا ہے وہ غزل ہوں میں

    مزید پڑھیے

تمام