شیشے کی دیوار تھی حائل قرب کی ایسی صورت تھی
شیشے کی دیوار تھی حائل قرب کی ایسی صورت تھی
کچھ اپنی بھی مجبوری تھی کچھ اس کی بھی ضرورت تھی
ساتھی اور کسی کا میرا ہم ذوق و ہم رنگ سخن
اس کی تنہائی کو شاید کچھ میری بھی ضرورت تھی
پہلی نظر نے کتنی حیرت سے اس شکل کو دیکھا تھا
میری سوچ کی تصویروں سے ملتی جلتی مورت تھی
زرد ہوا کا اندھا جھونکا نقش مٹا کر گزر گیا
ریت پہ اب بکھرے حرفوں کی اک بے چہرہ صورت تھی
جس کی باتیں شہد سے میٹھی جس کے ہاتھ میں سرخ گلاب
اس کی سوچ میں زہر بھرا تھا اس کے دل میں کدورت تھی
یہ کس کے اعزاز میں اکرمؔ مقتل میں ہے جشن بپا
آج صلیبوں کی اس نگری میں یہ کس کی صورت تھی