کر گئی گل تاب رنگوں کی فراوانی ہمیں
کر گئی گل تاب رنگوں کی فراوانی ہمیں
نور سا رنگ دے گیا شوق غزل رانی ہمیں
دامن دل بے ضمیری سے بچا پائے نہ ہم
لگ گیا آخر کو شہر غیر کا پانی ہمیں
مفت میں بیٹھے بٹھائے ساری دنیا دیکھ لی
مل نہ پائی تھی کبھی ایسی تن آسانی ہمیں
خود پسندی دیکھی تیری خود سری بھی دیکھ لی
اور کیا دکھلائے گا اے دشمن جانی ہمیں
تیری مرضی ہو تو چکھ لیں اپنی مرضی کا مزہ
زندگی کر لینے دے تھوڑی سی من مانی ہمیں
زندگی پر بند ہو کر رہ گئے ہیں راستے
کس جگہ لے آئی ہے اس دل کی من مانی ہمیں
باوجود اس کے پرایوں کے نہ دل ٹھنڈے ہوئے
بے طرح مہنگی پڑی اپنوں کی قربانی ہمیں
یوں تو گھر والے بلایا کرتے ہیں عبد الحسیب
ویسے دنیا کہتی ہے پرویزؔ رحمانی ہمیں