Parvez akhtar

پرویز اختر

پرویز اختر کی غزل

    ہے دل توڑنا تیری فطرت سنا میں

    ہے دل توڑنا تیری فطرت سنا میں اور اس کی کوئی حد نہ مدت سنا میں ولے ابتدا جان کر پیش اپنی محبت کی ہے یہ شریعت سنا میں تلاشی میں سارا جہاں گھومتا ہوں کہ جب سے جمال محبت سنا میں جو دیکھا تو جانا قیامت ہے کیا شے جہاں سے بہت تیری بابت سنا میں یہ رنگت یہ خوشبو یہ بادل یہ جھرنے یہ سب ...

    مزید پڑھیے

    طنز کرتا ہے آئنہ مجھ پر

    طنز کرتا ہے آئنہ مجھ پر وقت کیسا یہ آ پڑا مجھ پر ایک ہلکی سی ضرب ماری تھی شہر سارا ہی آ پڑا مجھ پر ایسا لگنے لگا ہے اب مجھ کو ہر مصیبت کی انتہا مجھ پر جان دے کر ہی ہو سکا ہے ادا کئی صدیوں کا قرض تھا مجھ پر سورۂ ناس پڑھتا رہتا ہوں کوئی جادو نہ چل سکا مجھ پر ڈھونڈنے ایک بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    عشق کو زہر کیوں پلاوے ہے

    عشق کو زہر کیوں پلاوے ہے عشق تو راستہ دکھاوے ہے پاؤں ننگے ہیں سر بھی ننگا ہے سورج اوپر سے کھلکھلاوے ہے خوب رستے بدل کے دیکھ لئے وہ ہر اک راستے میں آوے ہے چل رہا ہے اذیتوں کا سفر سانس جاوے ہے سانس آوے ہے لوگ ہلکان ہو رہے ہیں عبث زندگی کس کے ہاتھ آوے ہے وقت اک دائرے میں گھومے ...

    مزید پڑھیے

    کسی سے کہیں جی لگانے سے پہلے

    کسی سے کہیں جی لگانے سے پہلے ذرا پوچھ لیتے زمانے سے پہلے قیامت کی بابت بتاتے نہیں ہو نہ آنے سے پہلے نہ جانے سے پہلے یہ دل ہیں یہ آنکھیں بہت مضطرب ہیں ٹھکانے لگا جاؤ جانے سے پہلے بھلائی بھی تھوڑی سی جھولی میں ہوتی گناہوں کی جنت کمانے سے پہلے تغیر ہر اک زندگی کا مقدر میں رویا ...

    مزید پڑھیے

    سب کی آنکھوں میں رہا کرتے تھے

    سب کی آنکھوں میں رہا کرتے تھے فرد ہیں قوم ہوا کرتے تھے اب تعلق میں غرض ہے شامل دوست بچپن میں ہوا کرتے تھے راستے تال تلیا، ٹیلے کتنے رومان ہوا کرتے تھے اس کا خوش ہونا بہت بھاتا تھا ہم نشانے کو خطا کرتے تھے عشق پروان وہاں چڑھتا تھا جہاں آسیب رہا کرتے تھے ہاتھ تو اب بھی ملاتے ...

    مزید پڑھیے

    ہوا ہے نہ ہوگا زمانہ کسی کا

    ہوا ہے نہ ہوگا زمانہ کسی کا اٹھانا کسی کو گرانا کسی کا کئی رہ نما تھے علاوہ بھی دل کے مگر ہم نے کہنا نہ مانا کسی کا تعلق کہاں زندگی سے ہمارا تعارف ہے بس غائبانہ کسی کا مقدر ہی اول مقدر ہی آخر نہ پانی کسی کا نہ دانہ کسی کا جو باقی بچیں گے وہ کیسے جئیں گے اگر ہو ہی جائے زمانہ کسی ...

    مزید پڑھیے

    یہاں کسے ہنسنے کی فرصت رکھی ہے

    یہاں کسے ہنسنے کی فرصت رکھی ہے ایک سے نمٹو دوسری آفت رکھی ہے ہر جانب اک کھیل ہے آپا دھاپی کا منظر منظر کیسی وحشت رکھی ہے سوچوں تو بازار بھی چھوٹا لگتا ہے گھر کے اندر اتنی ضرورت رکھی ہے تیرے دل کو پیار سے مالا مال کرے پھول کے اندر جس نے نکہت رکھی ہے ایک کے دکھ میں سارے رویا کرتے ...

    مزید پڑھیے

    موسموں کی سختیاں

    موسموں کی سختیاں الحفیظ و الاماں بے وفا ہے یہ جہاں آگے تم جانو میاں شہر میں دو چار تھے کیا ہوئے آشفتگاں اب کوئی مثبت عمل کب تلک آہ و فغاں ایک صحرائے بسیط تیرے میرے درمیاں رحم سے عاری زمیں اور ناراض آسماں کیوں اٹھائیں ذلتیں کس کو رہنا ہے یہاں اڑ رہی ہیں چار سو زندگی کی ...

    مزید پڑھیے