عشق کو زہر کیوں پلاوے ہے

عشق کو زہر کیوں پلاوے ہے
عشق تو راستہ دکھاوے ہے


پاؤں ننگے ہیں سر بھی ننگا ہے
سورج اوپر سے کھلکھلاوے ہے


خوب رستے بدل کے دیکھ لئے
وہ ہر اک راستے میں آوے ہے


چل رہا ہے اذیتوں کا سفر
سانس جاوے ہے سانس آوے ہے


لوگ ہلکان ہو رہے ہیں عبث
زندگی کس کے ہاتھ آوے ہے


وقت اک دائرے میں گھومے ہے
یہ خزاں سے بہار لاوے ہے


کیا تامل ہے تیرے آنے میں
اشک بے اختیار آوے ہے


روز ہووے ہے کچھ نہ کچھ ایسا
جو مجھے رات بھر جگاوے ہے


جیتے جی کے ہیں سب جھمیلے یار
فرد آوے ہے فرد جاوے ہے


ایک لاشہ ادھر ہے ڈولی میں
ایک لاشہ ادھر سے جاوے ہے


میرا ہم زاد ہی مقابل ہے
کون دیکھو کسے ہراوے ہے


وقت ہاتھوں سے جا چکا پرویزؔ
اب کلیجہ ہی منہ کو آوے ہے