موسموں کی سختیاں
موسموں کی سختیاں
الحفیظ و الاماں
بے وفا ہے یہ جہاں
آگے تم جانو میاں
شہر میں دو چار تھے
کیا ہوئے آشفتگاں
اب کوئی مثبت عمل
کب تلک آہ و فغاں
ایک صحرائے بسیط
تیرے میرے درمیاں
رحم سے عاری زمیں
اور ناراض آسماں
کیوں اٹھائیں ذلتیں
کس کو رہنا ہے یہاں
اڑ رہی ہیں چار سو
زندگی کی دھجیاں
معرکہ ہے شعر گوئی
سہل مت جانو میاں
پھر وہی کاغذ قلم
پھر وہی کار زیاں