ہوا ہے نہ ہوگا زمانہ کسی کا

ہوا ہے نہ ہوگا زمانہ کسی کا
اٹھانا کسی کو گرانا کسی کا


کئی رہ نما تھے علاوہ بھی دل کے
مگر ہم نے کہنا نہ مانا کسی کا


تعلق کہاں زندگی سے ہمارا
تعارف ہے بس غائبانہ کسی کا


مقدر ہی اول مقدر ہی آخر
نہ پانی کسی کا نہ دانہ کسی کا


جو باقی بچیں گے وہ کیسے جئیں گے
اگر ہو ہی جائے زمانہ کسی کا


بنا وجہ عظمت نظر میں سبھی کی
جو کردار تھا مجرمانہ کسی کا


زمانے کو برداشت ہوتا نہیں ہے
نیا کوئی پودا لگانا کسی کا


بہت درد دیتا ہے پرویزؔ اخترؔ
مسلسل ہمیں آزمانا کسی کا


وہاں پر ہیں پرویزؔ اب ہم جہاں پر
نہ آنا کسی کا نہ جانا کسی کا