پروین طاہر کے تمام مواد

1 غزل (Ghazal)

    میں اس دن کی روشن اور

    میں اس دن کی روشن اور سفاک سحر کے ساحل پر آنکھیں ملتے دھوپ سے لڑتے بھاگ رہی ہوں جس نے مجھ پر کھلنے والے سب دروازے بھیڑ دئے ہیں چاند تراشے سب دروازے دروازوں کے پیچھے وہ جھلمل جھلمل تاروں میں ملفوف مناظر سپنا تھے منظر منظر کھلنے میں بھی کیسی نٹ کھٹ بھول بھلیاں کتنے سندر بل چھل ...

    مزید پڑھیے

11 نظم (Nazm)

    التباس

    ہمیں کس نے دھکیلا اس طرف ان نور برساتی ہوئی نیلی فضاؤں سے عنابی سرخ پھولوں سے اٹی مخمل ردائی سر زمینوں سے کنار آب جو سے وہ جہاں سیال چاندی بہہ رہی تھی ہمیں کس نے جگایا گنگناتے خواب سے جس میں کسی لحن مسلسل کی حسیں تکرار سے میٹھے مدھر نغمے ابھرتے تھے وہ جادو سی جکڑ قدموں میں ...

    مزید پڑھیے

    کہ میں اندھے خلاؤں سے بنی پاتال کا مقسوم ٹھہری

    مگر اے روشنی اے کائناتی روشنی ان سورجوں تاروں زمینوں کہکشاؤں کے لیے دل میں ترا نور محبت ایک جیسا ہے مجھے پاتال سے کھینچا مرا میلا بدن دھویا الوہی گھیر میں لے کر مری ان خشک جھیلوں کو مقدس آنسوؤں سے پھر شناسا کر دیا اے روشنی ان خشک جھیلوں کے کناروں پر تری ہلکی سی شبنم سے ترے شیتل ...

    مزید پڑھیے

    سفر ندیا کے پانی کو ودیعت ہے

    سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہے ابھی کچھ دیر ہی پہلے تلاطم خیز موجیں تھیں زمانہ اس کی ٹھوکر پر سمندر سر جھکائے با نہیں پھیلائے ہوئے چپ چاپ بیٹھا ہے تھکا ماندا کسی ہارے کھلاڑی کی طرح لیکن اچانک ہی کسی مانوس خوشبو نے اسے چونکا دیا ہے سامنے معصوم ندیا سانس ...

    مزید پڑھیے

    آواز سے باہر

    کئی صدیوں سے آوازوں نے روحوں کو بھنبھوڑا ہے سجل احساس کی رگ سے لہو کا آخری قطرہ قرینے سے نچوڑا ہے مرے اگلوں کو مجھ کو گم شدہ خوابوں کی منزل پر بنا آواز جانا ہے صدا کے معبدوں کی تیرگی کو چھوڑ کر پیچھے خلاؤں میں نیا رستہ بنانا ہے

    مزید پڑھیے

    ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں

    اے زمانے ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں تو نے ہٹائے پردہ ہائے خوش نما وہ جن کے پیچھے چھپ کے بیٹھی زندگی پہچان بھی پاتے تو کیسے اے زمانے ہم تری تکذیب کر سکتے نہیں کانٹوں پہ تو نے جب گھسیٹا تو سبک پھولوں میں تلنے کی کتابی خواہشوں سے جان چھوٹی اے زمانے تو نے ہم کو تجربہ گاہ نفی میں لا کے ...

    مزید پڑھیے

تمام