پرنو مشرا تیجس کی غزل

    ٹوٹتی فریاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں

    ٹوٹتی فریاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں اس جنوں کے باد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں لطف تم کو آ رہا ہے چار دن کے عشق میں تا ابد اک یاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں آنکھ رونے بھی نہ پائے اور دل ہو غم زدہ ضبط کے میعاد کی سوچو کبھو اے ہم نشیں تم کبھی پہلو بدل کر اس زمیں سے آ لگو پھر دل برباد کی سوچو ...

    مزید پڑھیے

    شب سیاہ ہے ندی کے پاس بیٹھے ہیں

    شب سیاہ ہے ندی کے پاس بیٹھے ہیں کسی کی یاد میں تنہا اداس بیٹھے ہیں گزر رہے ہیں مناظر نظر کے آگے سے سبھی سے چھپتے ہوئے بد حواس بیٹھے ہیں جگے ستاروں کی محفل اجڑنے والی ہے ادھر پہن کے اندھیرے لباس بیٹھے ہیں ہمارے بعد اسے کون ہے جو سنتا ہو فریب کھا کے بھی ہم اس کے پاس بیٹھے ہیں یہی ...

    مزید پڑھیے

    ہم تو ہیں آسماں کے خسارے زمین پر

    ہم تو ہیں آسماں کے خسارے زمین پر بچھڑے ہوئے ہیں اس پہ ہمارے زمین پر صورت ملی نہ یار ملا خاکیوں کے بیچ رہتے ہیں ہم گھٹا کے سہارے زمین پر وہ زلف شام خواب یہ سگریٹ دھواں شراب باقی بڑے خراب نظارے زمین پر کس سے کرے گا پیڑ کٹی بانہہ کا گلا کوئی نہیں ہے جس کو پکارے زمین پر جل کر بجھے ...

    مزید پڑھیے

    نہ ہوتا درد تو واپس سنور بھی سکتا تھا

    نہ ہوتا درد تو واپس سنور بھی سکتا تھا ٹھہر گیا ہے جو لمحہ گزر بھی سکتا تھا ندی کی اور گیا تھا اسی ارادے سے پلٹ گیا ہوں مری جاں اتر بھی سکتا تھا مجھے تلاش کریں گی وہ بھولی آنکھیں کل وگرنہ زخم تھے اتنے کہ مر بھی سکتا تھا یہ اور بات کسی اور کا نہ رہنے دیا وہ ایک شخص جو بھیتر ٹھہر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2