میں وہی ہوں

تری سرمئی آنکھ سے بہنے والا سیہ اشک
جس نے ملال اوڑھ کر تیری تکمیل کی
میں نے جو بھی کیا
اپنے اندر کا وحشی جگا کر ترے سامنے سر بہ زانو کیا
یا اداسی کے جبڑے سے چھینی ہوئی رنج کی اس غضب ناک خوراک سے تیرا دوزخ بھرا
تیری تکمیل کی
اب مجھے بھی اذیت کی بابت میں کوئی ستارہ بدن چاہیے
اپنے اندر کے شور و شغب سے نکل کر مری بات سن
شاخ امید پر کوئی کانٹا کھلا
مجھ کو واپس بلا