نصرت صدیقی کی غزل

    ہر اک اچھے برے سے واسطہ ہے

    ہر اک اچھے برے سے واسطہ ہے مجھے یہ شہر سارا جانتا ہے وہ بادل ہوں جو برسے گا یقیناً مرے رونے میں سب کا فائدہ ہے یہ سچ ہے تو رگ جاں سے ہے نزدیک مگر جینا تو میرا مسئلہ ہے شب فرقت کوئی آئے نہ آئے سحر ہونے کا خدشہ دوسرا ہے مجھے اب احتیاطاً خط نہ لکھنا مرے بیٹے کو پڑھنا آ گیا ...

    مزید پڑھیے

    جو ہر قدم پہ اندھیروں سے لڑنے والے ہیں

    جو ہر قدم پہ اندھیروں سے لڑنے والے ہیں ہمارے ساتھ محبت کے وہ اجالے ہیں وہ جانتے ہیں جو تاریخ پڑھنے والے ہیں ہمیں نے گردش دوراں کے بل نکالے ہیں بنائے پھرتے ہیں ہم خود کو خوش لباس مگر ہمارے گھر میں ابھی مکڑیوں کے جالے ہیں خلوص و ربط و محبت جنہیں میسر ہے وہ لوگ کون سی دنیا کے رہنے ...

    مزید پڑھیے

    ساری باتیں خواب کی تعبیر سے ملتی تو ہیں

    ساری باتیں خواب کی تعبیر سے ملتی تو ہیں میری تحریریں تری تصویر سے ملتی تو ہیں وہ سحر کی دل کشی ہو یا شفق کی سرخیاں کچھ نہ کچھ یہ آپ کی تصویر سے ملتی تو ہیں اہل ثروت آج بھی لرزاں ہیں جن کے نام سے مشکلیں وہ سب ہمیں تقدیر سے ملتی تو ہیں یہ حقیقت ہے عیاں تاریخ کے اوراق سے زندگی کی ...

    مزید پڑھیے

    بلوائیوں کا جس پہ یہاں کچھ اثر نہ تھا

    بلوائیوں کا جس پہ یہاں کچھ اثر نہ تھا وہ گھر امیر شہر کا تھا میرا گھر نہ تھا تہذیب و علم و فن کی ترقی کی راہ میں میرے علاوہ اور کوئی راہبر نہ تھا میں بھی کہیں کہیں رہا رعنائیوں سے دور تو بھی کہیں کہیں پہ شریک سفر نہ تھا تازہ خبر میں ہم نے پڑھا ہے یہ دوستو بارش تھی پتھروں کی مگر ...

    مزید پڑھیے

    یاد کا روگ مت لگا پیارے

    یاد کا روگ مت لگا پیارے عہد ماضی کو بھول جا پیارے جی بہلتا نہیں تصور سے تو کبھی سامنے بھی آ پیارے نام کے رہ گئے ہیں دنیا میں دوست احباب اقربا پیارے یہ بھی اک طرز غم گساری ہے تو مرا حوصلہ بڑھا پیارے شیشۂ دل کو توڑنے والے تو نے اچھا نہیں کیا پیارے جذبۂ شوق مر نہ جائے ...

    مزید پڑھیے

    بانٹ کر ہم نے ذوق بینائی

    بانٹ کر ہم نے ذوق بینائی روشنی شہر شہر پھیلائی تھم گئے اشک چھپ گئے تارے ہو گئی چاند کی پذیرائی تجھ سے ملنے ضرور آؤں گا کوئی صورت اگر نظر آئی اور کچھ دیر ساتھ رہنا تھا اے مری جرأت شکیبائی تیرے آنے کا شکریہ لیکن مجھ کو راس آ گئی ہے تنہائی ایک ہی قدر مشترک ہے بہت تو بھی ہرجائی ...

    مزید پڑھیے

    میں نے ہر گام پہ دھوکے کھائے

    میں نے ہر گام پہ دھوکے کھائے مجھ کو چہرے نہیں پڑھنے آئے پھر تری یاد کا سورج چمکا پھر گریزاں ہوئے مجھ سے سائے میں نے خوشیوں پہ کئے ہیں محمول جستجو میں جو تری غم پائے جن کے قد مصرع موزوں ٹھہرے بس وہی جان غزل کہلائے ضبط اظہار کو ترسے نصرتؔ خون جذبات کا ہوتا جائے

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2