کیا کیا نہ سامنے سے زمانے گزر گئے
کیا کیا نہ سامنے سے زمانے گزر گئے اک غم ہمارے ساتھ رہا ہم جدھر گئے آ جا کہ اب تو تاب شکیبائی بھی نہیں اے دوست تجھ کو دیکھے زمانے گزر گئے کن حادثوں کے درمیاں جینا پڑا مجھے دیکھے تھے جتنے خواب سہانے بکھر گئے ہم سے تو تیرا غم بھی چھپایا نہ جا سکا لب سی لئے تو پلکوں پہ آنسو ٹھہر ...