زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا
زاہد اسیر گیسوئے جاناں نہ ہو سکا جو مطمئن ہوا وہ پریشاں نہ ہو سکا قید خودی میں آدمی انساں نہ ہو سکا ذرہ سمٹ گیا تو بیاباں نہ ہو سکا دامن تک آ کے چاک گریباں بھی رہ گیا اندازۂ بہار گلستاں نہ ہو سکا خون دل و جگر نہ تبسم بنا نہ اشک مضمون آرزو کوئی عنواں نہ ہو سکا مرنا تو ایک بار ...