Nushur Wahidi

نشور واحدی

نشور واحدی کی نظم

    آنسو

    جب سے کہ محبت ہوئی پیارے ہیں یہ آنسو جیسے کہ میری آنکھ کے تارے ہیں یہ آنسو کہتے ہو کہ للہ اب آنسو نہ گراؤ ایسے میں کہ جینے کے سہارے ہیں یہ آنسو ہاں ہاں انہیں دامان محبت میں جگہ دو آنکھیں ہیں مری اور تمہارے ہیں یہ آنسو ہر خون جگر کے لئے تیار ہوں اب بھی ہارا ہوں نہ میں اور نہ ہارے ...

    مزید پڑھیے

    میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں

    یہ گاؤں کا منظر سناٹا اور شام کی دھندلی تاریکی اک شام بہت رنگین مگر مفلس کی نگاہوں میں پھیکی دھرتی پہ یہ پانی سونے کا آکاش پہ نہریں چاندی کی یہ چاند یہ تارے یہ دریا میرے لئے کیا ہے کچھ بھی نہیں یہ شہر کی چلتی سڑکوں پر ہر سمت دکانیں نورانی بجلی میں بھی جلتا ہو جیسے افلاس کے پتے کا ...

    مزید پڑھیے

    ساون

    کوئل کی سریلی تانوں پر تھم تھم کے پپیہا گاتا ہے حل ہو کے ہوا کی لہروں میں ساون کا مہینہ آتا ہے ٹھنڈی پروا کالا بادل برسا تو برستا جاتا ہے بوندوں کی مسلسل چوٹوں سے پتا پتا تھراتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے ایسے میں کوئی یاد آتا ہے گھنگھور گھٹا بجلی پانی دل سینے میں لہراتا ...

    مزید پڑھیے

    مہاتما گاندھی

    شب ایشیا کے اندھیرے میں سر راہ جس کی تھی روشنی وہ گوہر کسی نے چھپا لیا وہ دیا کسی نے بجھا دیا جو شہید ذوق حیات ہو اسے کیوں کہو کہ وہ مر گیا اسے یوں ہی رہنے دو حشر تک یہ جنازہ کس نے اٹھا دیا تری زندگی بھی چراغ تھی تیری گرم غم بھی چراغ ہے کبھی یہ چراغ جلا دیا کبھی وہ چراغ جلا ...

    مزید پڑھیے

    جلوۂ سحر

    تمام اوراق شبنمستان‌ سحر کی کرنوں سے جگمگائے طلوع ہوتی ہے صبح جیسے کلی تمنا کی مسکرائے کہیں درختوں میں غول چڑیا کا بیٹھ کر چہچہا رہا ہے کہیں سے طوطوں کا جھنڈ اٹھا فضائے گلشن میں غل مچائے سڑک جو آتی ہے چھاؤنی سے چہل پہل اس پہ خوب ہی ہے نکل کے گنجان بستیوں سے برائے تفریح سب ہیں ...

    مزید پڑھیے

    ناداروں کی عید

    زردار نمازی عید کے دن کپڑوں میں چمکتے جاتے ہیں نادار مسلماں مسجد میں جاتے بھی ہوئی شرماتے ہیں ملبوس پریشاں دل غمگیں افلاس کے نشتر کھاتے ہیں مسجد کے فرشتے انساں کو انسان سے کمتر پاتے ہیں قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے ایمان کا سر جھک جاتا ہے تسبیح سے اٹھتے ہیں شعلے سجدوں کو پسینہ ...

    مزید پڑھیے