Noor muneeri

نور منیری

نور منیری کے تمام مواد

7 غزل (Ghazal)

    آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی

    آگہی کے در کھلے تو زندگی اچھی لگی ہمدموں کی بھیڑ میں بے گانگی اچھی لگی شہر کے ہر موڑ پر آواز کے جنگل ملے ہم کو اپنے گاؤں ہی کی خامشی اچھی لگی یوں تو ہم دیتے رہے تیرے سوالوں کا جواب ہاں مگر اے دوست تیری سادگی اچھی لگی تجزیہ حالات کا ہم ہر طرح کرتے رہے جب سمجھ عاجز ہوئی بے مائیگی ...

    مزید پڑھیے

    تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا

    تھے سب کے ہاتھ میں خنجر سوال کیا کرتا میں بے گناہی کا اپنی ملال کیا کرتا اسی کے ایک اشارے پہ قتل عام ہوا امیر شہر سے میں عرض حال کیا کرتا میں قاتلوں کی نگاہوں سے بچ کے بھاگ آیا کہ میرے ساتھ تھے میرے عیال کیا کرتا دھرم کے نام پر انسانیت کی نسل کشی زمانہ ایسی بھی قائم مثال کیا ...

    مزید پڑھیے

    دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں

    دوش پہ اپنے بار اٹھائے پھرتے ہیں ہم کتنے آزار اٹھائے پھرتے ہیں پریم نگر کے باسی کانٹوں کے بن میں پھولوں کا انبار اٹھائے پھرتے ہیں تن کے اجلے من کے کالے ہیں جو لوگ نفرت کی دیوار اٹھائے پھرتے ہیں دین دھرم کے نام پہ قوموں کے دشمن دو دھاری تلوار اٹھائے پھرتے ہیں نورؔ مرے آنگن ...

    مزید پڑھیے

    یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا

    یہ سہل ہی سہی سکے اچھال کر رکھنا مگر یہ دل ہے اسے بھی سنبھال کر رکھنا نظر سے لاکھ ہوں اوجھل سراغ منزل کے جنوں کا کام ہے صحرا کھنگال کر رکھنا ہے انقلاب کے شعلوں کی گرمیاں اس میں متاع لوح و قلم کو سنبھال کر رکھنا نیا خیال نئی روشنی نئی راہیں سفر نیا ہے قدم دیکھ بھال کر ...

    مزید پڑھیے

    کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ

    کیوں شہر میں ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں دیکھ کیا حال محلے کا ہے جا اپنا مکاں دیکھ آفاق اڑانوں کے ابھی اور بہت ہیں اے طائر پرواز کبھی اپنا جہاں دیکھ دیتا نہیں نفرت کا شجر دھوپ میں سایہ بہتر ہے کوئی سایۂ دیوار اماں دیکھ آکاش یہ تاروں کی ضیا دیکھنے والے اگلے ہے زمیں چاند بھی سورج ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    خواب حسیں

    ترے گلاب سے ہونٹوں کی تازگی کی قسم بہار کی کوئی آہٹ سنائی دیتی ہے نظر کی جھیل میں مجھ کو اتارنے والے حیات اور بھی رنگیں دکھائی دیتی ہے ابھی ابھی یہ حسیں خواب میں نے دیکھا ہے اگرچہ تم مرے اتنے قریب آئی ہو کہ تم کو چھو لوں تو شاید ہی چھو سکوں یا پھر نظر جو تم سے ملاؤں یقیں نہ تھا اس ...

    مزید پڑھیے

    احتجاج

    چمن زاروں کو صحرا کر دیا ہے یہ کس نے مسخ چہرہ کر دیا ہے جہان نو کی اس اندھی روش نے مرے زخموں کو گہرا کر دیا ہے سنہرے خواب دکھلا کر کسی نے نئی بستی کا شہرہ کر دیا ہے اور اپنی بد قماشی کے چلن سے ہمیں بازی کا مہرہ کر دیا ہے نہیں فریاد کوئی سننے والا سبھی کو گونگا بہرہ کر دیا ہے ہمارے ...

    مزید پڑھیے

    امن کا سورج

    تم تشدد کے روادار نہیں ہو لیکن امن کی دل سے حمایت بھی کہاں کی تم نے سالہا سال رقابت کے یہ وحشی جذبے کتنے گلشن کی زمیں کر گئے پامال مگر خون انساں بھی ہوا آگ کے شعلے بھی اٹھے دوریاں اور بڑھیں اور بڑھیں اور بڑھیں مسئلہ سب کا بقا کا ہو جہاں پیش نظر اس کے حل کرنے کا انداز بدلنا ...

    مزید پڑھیے

    ایک پیغام اپنے نام

    ہندو مسلم بھید مٹا سب سے اپنی یاری رکھ چاہے اپنی جان گنوا آن وطن کی پیاری رکھ دشمن سے بھی یاری رکھ ایسی بھی دل داری رکھ مایوسی سے مت گھبرا کوشش اپنی جاری رکھ پہلے دینی فرض نبھا پیچھے دنیا داری رکھ دور سفر پر جانا ہے چلنے کی تیاری رکھ کھوٹے سکے مت اپنا آنکھوں میں بیداری رکھ ٹھونک ...

    مزید پڑھیے

    ہمارا غم

    کسی نے چہرہ ہمارا کبھی پڑھا ہی نہیں کسی نے نام ہمارا کبھی لیا ہی نہیں تمہاری بزم میں ہم بھی شریک رہتے ہیں ہمارا حال کسی نے کبھی سنا ہی نہیں بلند و بانگ یا دعوے یہ دوستی کے اصول عمل کے نام سے خالی رہیں تو سارے فضول کبھی تو پاس ادب ہو وفا شعاری کا دل و نظر میں ہو جذبہ خلوص کاری کا اگر ...

    مزید پڑھیے

تمام